Skip to main content

وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَاِذًا لَّا يَلْبَـثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا

And indeed
وَإِن
اور بیشک
they were about
كَادُوا۟
قریب تھا
(to) scare you
لَيَسْتَفِزُّونَكَ
البتہ عاجز کردیں تجھ کو
from
مِنَ
سے
the land
ٱلْأَرْضِ
زمین
that they evict you
لِيُخْرِجُوكَ
تاکہ وہ نکال دیں تجھ کو
from it
مِنْهَاۖ
اس سے
But then
وَإِذًا
اور تب
not
لَّا
نہ
they (would) have stayed
يَلْبَثُونَ
وہ ٹھہرتے
after you
خِلَٰفَكَ
تیرے پیچھے
except
إِلَّا
مگر
a little
قَلِيلًا
تھوڑا سا

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اور یہ لوگ اس بات پر بھی تلے رہے ہیں کہ تمہارے قدم اِس سر زمین سے اکھاڑ دیں اور تمہیں یہاں سے نکال باہر کریں لیکن اگر یہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھیر سکیں گے

English Sahih:

And indeed, they were about to provoke [i.e., drive] you from the land [i.e., Makkah] to evict you therefrom. And then [when they do], they will not remain [there] after you, except for a little.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اور یہ لوگ اس بات پر بھی تلے رہے ہیں کہ تمہارے قدم اِس سر زمین سے اکھاڑ دیں اور تمہیں یہاں سے نکال باہر کریں لیکن اگر یہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھیر سکیں گے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور بیشک قریب تھا کہ وہ تمہیں اس زمین سے ڈگا دیں (کھسکادیں) کہ تمہیں اس سے باہر کردیں اور ایسا ہوتا تو وہ تمہارے پیچھے نہ ٹھہرتے مگر تھوڑا

احمد علی Ahmed Ali

اور وہ تو تجھے اس زمین سے دھکیل دینے کو تھے تاکہ تجھے اس سے نکال دیں پھر وہ بھی تیرے بعد بہت ہی کم ٹھرتے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

یہ تو آپ کے قدم اس سرزمین سے اکھاڑنے ہی لگے تھے کہ آپ کو اس سے نکال دیں (١) پھر یہ بھی آپ کے بعد بہت ہی کم ٹھہرتے (٢)

٧٦۔١ یہ سازش کی طرف اشارہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکے سے نکالنے کے لئے قریش مکہ نے تیار کی تھی، جس سے اللہ نے آپ کو بچا لیا۔
٧٦۔٢ یعنی اگر اپنے منصوبے کے مطابق یہ آپ کو مکے سے نکال دیتے تو یہ بھی اس کے بعد زیادہ دیر نہ رہتے یعنی عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاتے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور قریب تھا کہ یہ لوگ تمہیں زمین (مکہ) سے پھسلا دیں تاکہ تمہیں وہاں سے جلاوطن کر دیں۔ اور اس وقت تمہارے پیچھے یہ بھی نہ رہتے مگر کم

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

یہ تو آپ کے قدم اس سرزمین سے اکھاڑنے ہی لگے تھے کہ آپ کو اس سے نکال دیں۔ پھر یہ بھی آپ کے بعد بہت ہی کم ٹھہر پاتے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور یہ لوگ اس بات میں بھی کوشاں تھے کہ اس سر زمین سے آپ کے قدم اکھیڑ دیں اور اس طرح آپ کو یہاں سے نکال دیں اور اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ خود بھی آپ کے بعد زیادہ دیر نہیں ٹھہریں گے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور یہ لوگ آپ کو زمین مکہّ سے دل برداشتہ کررہے تھے کہ وہاں سے نکال دیں حالانکہ آپ کے بعد یہ بھی تھوڑے دنوں سے زیادہ نہ ٹھہر سکے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور کفار یہ بھی چاہتے تھے کہ آپ کے قدم سرزمینِ (مکّہ) سے اکھاڑ دیں تاکہ وہ آپ کو یہاں سے نکال سکیں اور (اگر بالفرض ایسا ہو جاتا تو) اس وقت وہ (خود بھی) آپ کے پیچھے تھوڑی سی مدت کے سوا ٹھہر نہ سکتے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

وطنی عصبیت اور یہودی
کہتے ہیں کہ یہودیوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ آپ کو ملک شام چلا جانا چاہئے وہی نبیوں کا وطن ہے اس شہر مدینہ کو چھوڑ دینا چاہئے اس پر یہ آیت اتری۔ لیکن یہ قول ضعیف ہے اس لئے کہ آیت مکی ہے اور مدینے میں آپ کی رہائش اس کے بعد ہوئی ہے کہتے ہیں کہ تبوک کے بارے میں یہ آیت اتری ہے یہودیوں کے کہنے سے کہ شام جو نبیوں کی اور محشر کی زمین ہے آپ کو وہیں رہنا چاہئے، اگر آپ سچے ہی سورة بنی اسرائیل کی آیتیں اتریں، اس کے بعد سورت ختم کردی گئی تھی آیت ( وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيْلًا ؀) 17 ۔ الإسراء ;76-77) اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدینے کی واپسی کا حکم دیا اور فرمایا وہیں آپ کی موت زیست اور وہیں سے دوبارہ اٹھ کر کھڑا ہونا ہے۔ لیکن اس کی سند بھی غور طلب ہے اور صاف ظاہر ہے کہ یہ واقعہ بھی ٹھیک نہیں تبوک کا غزوہ یہود کے کہنے سے نہ تھا بلکہ اللہ کا فرمان موجود ہے آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ\012\03 ) 9 ۔ التوبہ ;123) جو کفار تمہارے ارد گرد ہیں ان سے جہاد کرو۔ اور آیت میں ہے کہ جو اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اللہ رسول کے حرام کردہ کو حرام نہیں سمجھتے ہیں اور حق کو قبول نہیں کرتے ایسے اہل کتاب سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو یہاں تک کہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دینا منظور کرلیں۔ اور اس غزوے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے جو اصحاب جنگ موتہ میں شہید کر دئے گئے تھے ان کا بدلہ لیا جائے، واللہ اعلم۔ اور اگر مندرجہ بالا واقعہ صحیح ہوجائے تو اسی پر وہ حدیث محمول کی جائے گی، جس میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں مکہ مدینہ اور شام میں قرآن نازل ہوا ہے۔ ولید تو اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ شام سے مراد بیت المقدس ہے لیکن شام سے مراد تبوک کیوں نہ لیا جائے جو بالکل صاف اور بہت درست ہے۔ واللہ اعلم ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد کافروں کا وہ ارادہ ہے جو انہوں نے مکہ سے جلا وطن کرنے کے بارے میں کیا تھا چناچہ یہی ہوا بھی کہ جب انہوں نے آپ کو نکالا۔ پہر یہ بھی وہاں زیادہ مدت نہ گزار سکے، اللہ تعالیٰ نے فورا ہی آپ کو غالب کیا۔ ڈیرھ سال ہی گزرا تھا کہ بدر کی لڑائی بغیر کسی تیاری اور اطلاع کے اچانک ہوگئی اور وہیں کافروں کا اور کفر کا دھڑا ٹوٹ گیا، ان کے شریف و رئیس تہ تیغ ہوئے، ان کی شان و شوکت خاک میں مل گئی، ان کے سردار قید میں آگئے۔ پس فرمایا کہ یہی عادت پہلے سے جاری ہے۔ سابقہ رسولوں کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ کفار نے جب انہیں تنگ کیا اور دیس سے نکال دیا پھر وہ بچ نہ سکے، عذاب اللہ نے انہیں غارت اور بےنشان کردیا۔ ہاں چونکہ ہمارے پیغمبر رسول رحمت تھے، اس لئے کوئی آسمانی عام عذاب ان کافروں پر نہ آیا۔ جیسے فرمان ہے آیت (وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم) یعنی تیری موجودگی میں اللہ انہیں عذاب نہ کرے گا۔