وَاِذْ قُلْنَا لَـكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ ۗ وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِىْۤ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِى الْقُرْاٰنِ ۗ وَنُخَوِّفُهُمْۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًا
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
یاد کرو اے محمدؐ، ہم نے تم سے کہہ دیا تھا کہ تیرے رب نے اِن لوگوں کو گھیر رکھا ہے اور یہ جو کچھ ابھی ہم نے تمہیں دکھایا ہے، اِس کو اور اُس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، ہم نے اِن لوگوں کے لیے بس ایک فتنہ بنا کر رکھ دیا ہم اِنہیں تنبیہ پر تنبیہ کیے جا رہے ہیں، مگر ہر تنبیہ اِن کی سر کشی ہی میں اضافہ کیے جاتی ہے
English Sahih:
And [remember, O Muhammad], when We told you, "Indeed, your Lord has encompassed the people." And We did not make the sight which We showed you except as a trial for the people, as was the accursed tree [mentioned] in the Quran. And We threaten [i.e., warn] them, but it increases them not except in great transgression.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
یاد کرو اے محمدؐ، ہم نے تم سے کہہ دیا تھا کہ تیرے رب نے اِن لوگوں کو گھیر رکھا ہے اور یہ جو کچھ ابھی ہم نے تمہیں دکھایا ہے، اِس کو اور اُس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، ہم نے اِن لوگوں کے لیے بس ایک فتنہ بنا کر رکھ دیا ہم اِنہیں تنبیہ پر تنبیہ کیے جا رہے ہیں، مگر ہر تنبیہ اِن کی سر کشی ہی میں اضافہ کیے جاتی ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور جب ہم نے تم سے فرمایا کہ سب لوگ تمہارے رب کے قابو میں ہیں اور ہم نے نہ کیا وہ دکھاوا جو تمہیں دکھایا تھا مگر لوگوں کی آزمائش کو اور وہ پیڑ جس پر قرآن میں لعنت ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو انھیں نہیں بڑھتی مگر بڑی سرکشی،
احمد علی Ahmed Ali
اور جب ہم نے تم سے کہہ دیا کہ تیرے رب نے سب کو قابو میں کر رکھا ہے اور وہ خواب جو ہم نے تمہیں دکھایا اور وہ خبیث درخت جس کا ذکر قرآن میں ہے ان سب کو ان لوگو ں کے لیے فتنہ بنا دیا اور ہم تو انہیں ڈراتے ہیں سو اس سے ان کی شرارت اوربھی بڑھتی جاتی ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور یاد کرو جب کہ ہم نے آپ سے فرما دیا کے آپ کے رب نے لوگوں کو گھیر لیا ہے۔ (١) جو رویت (عینی روئیت) ہم نے آپ کو دکھا دی تھی وہ لوگوں کے لئے صاف آزمائش ہی تھی اور اسی طرح وہ درخت بھی جس سے قرآن میں اظہار نفرت کیا گیا ہے (٢) ہم انہیں ڈرا رہے ہیں لیکن یہ انہیں اور بڑی سرکشی میں بڑھا رہا ہے (٣)
٦٠۔١ یعنی لوگ اللہ کے غلبہ و تصرف میں ہیں اور جو اللہ چاہے گا وہی ہوگا نہ کہ جو وہ چاہیں گے، یا مراد اہل مکہ ہیں کہ وہ اللہ کے زیر اقتدار ہیں، آپ بےخوفی سے تبلیغ رسالت کیجئے، وہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، ہم ان سے آپ کی حفاظت فرمائیں گے۔ یا جنگ بدر اور فتح مکہ کے موقع پر جس طرح اللہ نے کفار مکہ کو عبرت ناک شکست سے دو چار کیا، اس کو واضح کیا جارہا ہے۔
٦٠۔٢ صحابہ و تابعین نے اس رویا کی تفسیر عینی رویت سے کی ہے اور مراد اس سے معراج کا واقعہ ہے، جو بہت سے کمزور لوگوں کے لئے فتنے کا باعث بن گیا اور وہ مرتد ہوگئے۔ اور درخت سے مراد (تھوہر) کا درخت ہے، جس کا مشاہدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج، جہنم میں کیا۔ اَ لْمَلْعُونَۃَسے مراد، کھانے والوں پر یعنی جہنمیوں پر لعنت۔ جیسے دوسرے مقام پر ہے کہ۔ ان شجرۃ الزقوم۔ طعام الاثیم۔ زقوم کا درخت، گناہ گاروں کا کھانا ہے
٦٠۔٣ یعنی کافروں کے دلوں میں جو خبث و عناد ہے، اس کی وجہ سے، نشانیاں دیکھ کر ایمان لانے کی بجائے، ان کی سرکشی و طغیانی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
جب ہم نے تم سے کہا کہ تمہارا پروردگار لوگوں کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اور جو نمائش ہم نے تمہیں دکھائی اس کو لوگوں کے لئے آرمائش کیا۔ اور اسی طرح (تھوہر کے) درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی۔ اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو ان کو اس سے بڑی (سخت) سرکشی پیدا ہوتی ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور یاد کرو جب کہ ہم نے آپ سے فرما دیا کہ آپ کے رب نے لوگوں کو گھیر لیا ہے۔ جو رویا (عینی رؤیت) ہم نے آپ کو دکھائی تھی وه لوگوں کے لئے صاف آزمائش ہی تھی اور اسی طرح وه درخت بھی جس سے قرآن میں اﻇہار نفرت کیا گیا ہے۔ ہم انہیں ڈرا رہے ہیں لیکن یہ انہیں اور بڑی سرکشی میں بڑھا رہا ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کے پروردگار نے لوگوں کو گھیرے میں لے لیا ہے اور جو منظر ہم نے آپ کو دکھایا تھا۔ اس کو اور اس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، ہم نے لوگوں کیلئے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں مگر یہ ڈرانا ان کی سرکشی میں اضافہ ہی کر رہا ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب ہم نے کہہ دیا کہ آپ کا پروردگار تمام لوگوں کے حالات سے باخبر ہے اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل هلعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے اور ہم لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں لیکن ان کی سرکشی بڑھتی ہی جارہی ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور (یاد کیجئے) جب ہم نے آپ سے فرمایا کہ بیشک آپ کے رب نے (سب) لوگوں کو (اپنے علم و قدرت کے) احاطہ میں لے رکھا ہے، اور ہم نے تو (شبِ معراج کے) اس نظّارہ کو جو ہم نے آپ کو دکھایا لوگوں کے لئے صرف ایک آزمائش بنایا ہے (ایمان والے مان گئے اور ظاہر بین الجھ گئے) اور اس درخت (شجرۃ الزقوم) کو بھی جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، اور ہم انہیں ڈراتے ہیں مگر یہ (ڈرانا بھی) ان میں کوئی اضافہ نہیں کرتا سوائے اور بڑی سرکشی کے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
مقصد معراج
اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے رسول (علیہ السلام) کو تبلیغ دین کی رغبت دلا رہا ہے اور آپ کے بچاؤ کی ذمہ داری لے رہا ہے کہ سب لوگ اسی کی قدرت تلے ہیں، وہ سب پر غالب ہے، سب اس کے ماتحت ہیں، وہ ان سب سے تجھے بچاتا رہے گا۔ جو ہم نے تجھے دکھایا وہ لوگوں کے لیے ایک صریح آزمائش ہے۔ یہ دکھانا معراج والی رات تھا، جو آپ کی آنکھوں نے دیکھا۔ نفرتی درخت سے مراد زقوم کا درخت ہے۔ بہت سے تابعین اور ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یہ دکھانا آنکھ کا دکھانا، مشاہدہ تھا جو شب معراج میں کرایا گیا تھا۔ معراج کی حدیثیں بہت پوری تفصیل کے ساتھ اس سورت کے شروع میں بیان ہوچکی ہیں۔ یہ بھی گزر چکا ہے کہ معراج کے واقعہ کو سن کے بہت سے مسلمان مرتد ہوگئے اور حق سے پھرگئے کیونکہ ان کی عقل میں یہ نہ آیا تو اپنی جہالت سے اسے جھوٹا جانا اور دین کو چھوڑ کر بیٹھے۔ ان کے برخلاف کامل ایمان والے اپنے یقین میں اور بڑھ گئے اور ان کے ایمان اور مضبوط ہوگئے۔ ثابت قدمی اور استقلال میں زیادہ ہوگئے۔ پس اس واقعہ کو لوگوں کی آزمائش اور ان کے امتحان کا ذریعہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کردیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب خبر دی اور قرآن میں آیت اتری کہ دوزخیوں کو زقوم کا درخت کھلایا جائے گا اور آپ نے اسے دیکھا بھی تو کافروں نے اسے سچ نہ مانا اور ابو جہل ملعون مذاق اڑاتے ہوئے کہنے لگا لاؤ کجھور اور مکھن لاؤ اور اس کا زقوم کرو یعنی دونوں کو ملا دو اور خب شوق سے کھاؤ بس یہی زقوم ہے، پھر اس خوراک سے گھبرانے کے کیا معنی ؟ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد بنو امیہ ہیں لیکن یہ قول بالکل ضعیف اور غریب ہے۔ پہلے قول کے قائل وہ تمام مفسر ہیں جو اس آیت کو معراج کے بارے میں مانتے ہیں۔ جیسے ابن عباس مسروق، ابو مالک، حسن بصری وغیرہ۔ سہل بن سعید کہتے ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فلاں قبیلے والوں کو اپنے منبر پر بندروں کی طرح ناچتے ہوئے دیکھا اور آپ کو اس سے بہت رنج ہوا پھر انتقال تک آپ پوری ہنسی سے ہنستے ہوئے نہیں دکھائی دئے اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔ (ابن جریر) لیکن یہ سند بالکل ضعیف ہے۔ محمد بن حسن بن زبالہ متروک ہے اور ان کے استاد بھی بالکل ضعیف ہیں۔ خود امام ابن جریر (رح) کا پسندید قول بھی یہی ہے کہ مراد اس سے شب معراج ہے اور شجرۃ الزقوم ہے کیونکہ مفسرین کا اس پر اتفاق ہے۔ ہم کافروں کو اپنے عذابوں وغیرہ سے ڈرا رہے ہیں لیکن وہ اپنی ضد، تکبر، ہٹ دھرمی اور بےایمانی میں اور بڑھ رہے ہیں۔