وَقَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًا
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
وہ کہتے ہیں "جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھائے جائیں گے؟"
English Sahih:
And they say, "When we are bones and crumbled particles, will we [truly] be resurrected as a new creation?"
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
وہ کہتے ہیں "جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھائے جائیں گے؟"
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور بولے کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے کیا سچ مچ نئے بن کر اٹھیں گے
احمد علی Ahmed Ali
اور کہتے ہیں کیا جب ہم ہڈیاں اور چورا ہو جائیں گے پھر نئے بن کر اٹھیں گے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
انہوں نے کہا کہ جب ہم ہڈیاں اور (مٹی ہو کر) ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا ہم از سر نو پیدا کرکے پھر دوبارہ اٹھا کر کھڑے کر دیئے جائیں گے
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور کہتے ہیں کہ جب ہم (مر کر بوسیدہ) ہڈیوں اور چُور چُور ہوجائیں گے تو کیا ازسرنو پیدا ہو کر اُٹھیں گے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
انہوں نے کہا کیا جب ہم ہڈیاں اور (مٹی ہو کر) ریزه ریزه ہوجائیں گے تو کیا ہم ازسرنو پیدا کر کے پھر دوباره اٹھا کر کھڑے کر دیئے جائیں گے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور وہ کہتے ہیں کہ جب ہم (مر کر) ہڈیاں اور چُورا ہو جائیں گے تو کیا از سرِ نو پیدا کرکے اٹھائے جائیں گے؟
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یہ کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈی اور خاک ہوجائیں گے تو کیا دوبارہ نئی مخلوق بناکر اٹھائے جائیں گے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور کہتے ہیں: جب ہم (مَر کر بوسیدہ) ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہمیں اَز سرِ نو پیدا کر کے اٹھایا جائے گا،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
سب دوبارہ پیدا ہوں گے
کافر جو قیامت کے قائل نہ تھے اور مرنے کے بعد کے جینے کو محال جانتے تھے وہ بطور انکار پوچھا کرتے تھے کہ کیا ہم جب ہڈی اور مٹی ہوجائیں گے، غبار بن جائیں گے، کچھ نہ رہیں گے بالکل مٹ جائیں گے۔ پھر بھی نئی پیدائش سے پیدا ہوں گے ؟ سورة نازعات میں ان منکروں کا قول بیان ہوا ہے کہ کیا ہم مرنے کے بعد الٹے پاؤں زندگی میں لوٹائے جائیں گے ؟ اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ ہماری ہڈیاں بھی گل سڑ گئی ہوں ؟ بھئی یہ تو بڑے ہی خسارے کی بات ہے۔
سورة یاسین میں ہے کہ یہ ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے بیٹھ گیا اور اپنی پیدائش کو فراموش کر گیا۔ الخ پس انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ ہڈیاں تو کیا تم خواہ پتھر بن جاؤ خواہ لوہا بن جاؤ۔ خواہ اس سے بھی زیادہ سخت چیز بن جاؤ مثلا پہاڑ یا زمین یا آیمان بلکہ تم خود موت ہی کیوں نہ بن جاؤ اللہ پر تمہارا جلانا مشکل نہیں جو چاہو ہوجاؤ دوبارہ اٹھو گے ضرور۔ حدیث میں ہے کہ بھیڑ یے کی صورت میں موت کو قیامت کے دن جنت دوزخ کے درمیان لایا جاتا ہے اور دونوں سے کہا جائے گا کہ اسے پہچانتے ہو ؟ سب کہیں گے ہاں پھر اسے وہیں ذبح کردیا جائے گا اور منادی ہوجائے گی کہ اے جنتیو اب دوام ہے موت نہیں اور اے جہنمیو اب ہمیشہ قیام ہے موت نہیں۔ یہاں فرمان ہے کہ یہ پوچھتے ہیں کہ اچھا جب ہم ہڈیاں اور چورا ہوجائیں یا پتھر اور لوہا ہوجائیں گے یا جو ہم چاہیں اور جو بڑی سے بڑی سخت چیز ہو وہ ہم ہوجائیں تو یہ تو بتلاؤ کہ کس کے اختیار میں ہے کہ اب ہمیں پھر سے اس زندگی کی طرف لوٹا دے ؟ ان کے اس سوال اور بےجا اعتراض کے جواب میں تو انہیں سمجھا کہ تمہیں لوٹانے والا تمہارا سچا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے جب کہ تم کچھ نہ تھے۔ پھر اس پر دوسری بار کی پیدائش کیا گراں ہے ؟ بلکہ بہت آسان ہے تم خواہ کچھ بھی بن جاؤ۔ یہ جواب چونکہ لا جواب ہے حیران تو ہوجائیں گے لیکن پھر بھی اپنی شرارت سے باز نہ آئیں گے، ، بد عقیدگی نہ چھوڑیں گے اور بطور مذاق سر ہلاتے ہوئے کہیں گے کہ اچھایہ ہوگا کب ؟ سچے ہو تو وقت کا تعین کردو۔ بےایمانوں کا یہ شیوہ ہے کہ وہ جلدی مچاتے رہتے ہیں۔ ہاں ہے تو وہ وقت قریب ہی، تم اس کے لئے انتظار کرلو، غلفت نہ برتو۔ اس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ آنے والی چیز کو آئی ہوئی سمجھا کرو۔ اللہ کی ایک آواز کے ساتھ ہی تم زمین سے نکل کھڑے ہوؤ گے ایک آنکھ جھپکانے کی جیر بھی تو نہ لگے گی۔ اللہ کے فرمان کے ساتھ ہی تم سے میدان محشر پر ہوجائے گا۔ قبروں سے اٹھ کر اللہ کی تعریفیں کرتے ہوئے اس کے احکام کی بجا آوری میں کھڑے ہوجاؤ گے۔ حمد کے لائق وہی ہے تم اس کے حکم سے اور ارادے سے باہر نہیں ہو۔ حدیث میں ہے کہ لا الہ الا اللہ کہنے والوں پر ان کی والوں پر ان کی قبر میں کوئی وحشت نہیں ہوگی۔ گویا کہ میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ قبروں سے اٹھ رہے ہیں اپنے سر سے مٹی جھاڑتے ہوئے لا الہ الا للہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ کہیں گے کہ اللہ کی حمد ہے جس نے ہم سے غم دور کردیا۔ سورة فاطر کی تفسیر میں یہ بیان آ رہا ہے ان شاء اللہ۔
اس وقت تمہارا یقین ہوگا کہ تم بہت ہی کم مدت دنیا میں رہے گویا صبح یا شام کوئی کہے گا دس دن کوئی کہے گا ایک دن کوئی سمجھے گا ایک ساعت ہی۔ سوال پر یہی کہیں گے کہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ہی۔ اور اس پر قسمیں کھائیں گے۔ اسی طرح دنیا میں بھی اپنے جھوٹ پر قسمیں کھاتے رہے تھے۔