فَاِذَا قَرَأْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو
English Sahih:
So when you recite the Quran, [first] seek refuge in Allah from Satan, the expelled [from His mercy].
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
تو جب تم قرآن پڑھو تو اللہ کی پناہ مانگو شیطان مردود سے،،
احمد علی Ahmed Ali
سو جب تو قرآن پڑھنے لگے تو شیطان مردود سے الله کی پناہ لے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
قرآن پڑھنے کے وقت راندے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ (١)
٩٨۔١ خطاب اگرچہ نبی سے ہے لیکن مخاطب ساری امت ہے۔ یعنی تلاوت کے آغاز میں
اَ عُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھا جائے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے پناہ مانگ لیا کرو
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
قرآن پڑھنے کے وقت راندے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناه طلب کرو
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
پس جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو مردود شیطان سے خدا کی پناہ مانگ لیا کریں۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
لہذا جب آپ قرآن پڑھیں تو شیطان هرجیم کے مقابلہ کے لئے اللہ سے پناہ طلب کریں
طاہر القادری Tahir ul Qadri
سو جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود (کی وسوسہ اندازیوں) سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
آعوذ کا مقصد
اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی اپنے مومن بندوں کو حکم فرماتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے وہ اعوذ پڑھ لیا کریں۔ یہ حکم فرضیت کے طور پر نہیں۔ ابن جریر وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ آعوذ کی پوری بحث مع معنی وغیرہ کے ہم اپنی اس تفسیر کے شروع میں لکھ آئے ہیں فالحمد اللہ۔ اس حکم کی مصلحت یہ ہے کہ قاری قرآن میں الھنے، غور و فکر سے رک جانے اور شیطانی وسوسوں میں آنے سے بچ جائے۔ اسی لئے جمہور کہتے ہیں کہ قرأت شروع کرنے سے پہلے آعوذ پڑھ لیا کر۔ کسی کا قول یہ بھی ہے کہ ختم قرأت کے بعد پڑھے۔ ان کی دلیل یہی آیت ہے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور احادیث کی دلالت بھی اس پر ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے کہ ایماندار متوکلین کو وہ ایسے گناہوں میں پھانس نہیں سکتا، جن سے وہ توبہ ہی نہ کریں۔ اس کی کوئی حجت ان کے سامنے چل نہیں سکتی، یہ مخلص بندے اس کے گہرے مکر سے محفوظ رہتے ہیں۔ ہاں جو اس کی اطاعت کریں، اس کے کہے میں آجائیں، اسے اپنا دوست اور حمایتی ٹھہرا لیں۔ اسے اللہ کی عبادتوں میں شریک کرنے لگیں۔ ان پر تو یہ چھا جاتا ہے۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ " ب " کو سبیبہ بتلائیں یعنی وہ اس کی فرمانبرداری کے باعث اللہ کے ساتھ شرکت کرنے لگ جائیں، یہ معنی بھی ہیں کہ وہ اسے اپنے مال میں، اپنی اولاد میں شریک الہ ٹھیرا لیں۔