اِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۤىِٕ ذِى الْقُرْبٰى وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۤءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْىِۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو
English Sahih:
Indeed, Allah orders justice and good conduct and giving [help] to relatives and forbids immorality and bad conduct and oppression. He admonishes you that perhaps you will be reminded.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
بیشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور رشتہ داروں کے دینے کا اور منع فرماتا بے حیائی اور برُی بات اور سرکشی سے تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو،
احمد علی Ahmed Ali
بے شک الله انصاف کرنے کا اوربھلائی کرنے کا اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم کرتا ہے اوربے حیائی اوربری بات اور ظلم سے منع کرتا ہے تمہیں سمجھاتا ہے تاکہ تم سمجھو
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اللہ تعالٰی عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے، (١) وہ خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔
٩٠۔١ عدل کے مشہور معنی انصاف کرنے کے ہیں۔ یعنی اپنوں اور بیگانوں سب کے ساتھ انصاف کیا جائے، کسی کے ساتھ دشمنی یا عناد یا محبت یا قرابت کی وجہ سے، انصاف کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔ ایک دوسرے معنی اعتدال کے ہیں یعنی کسی معاملے میں بھی زیادتی یا کمی کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ حتیٰ کہ دین کے معاملے میں بھی۔ کیونکہ دین میں زیادتی کا نتیجہ حد سے زیادہ گزر جانا ہے، جو سخت خراب ہے اور کمی، دین میں کوتاہی ہے یہ بھی ناپسندیدہ ہے۔
٩٠۔۲احسان کے ایک معنی حسن سلوک، عفو ودرگزر اور معاف کر دینے کے ہیں۔ دوسرے معنی تفضل کے ہیں یعنی حق واجب سے زیادہ دینا یا عمل واجب سے زیادہ عمل کرنا۔ مثلا کسی کام کی مزدوری سو روپے طے ہے لیکن دیتے وقت ۱۰،۲۰ روپے زیادہ دے دینا، طے شدہ سو روپے کی ادائیگی حق واجب ہے اور یہ عدل ہے۔ مزید ۱۰،۲۰ روپے یہ احسان ہے۔ عدل سے بھی معاشرے میں امن قائم ہوتا ہے لیکن احسان سے مزید خوش گواری اور اپنائیت و فدائیت کے جذبات نشو ونما پاتے ہیں۔ اور فرائض کی ادائیگی کے ساتھ نوافل کا اہتمام، عمل واجب سے زیادہ عمل جس سے اللہ کا قرب خصوصی حاصل ہوتا ہے۔ احسان کے ایک تیسرے معنی اخلاص عمل اور حسن عبادت ہے، جس کو حدیث میں ان تعبد اللہ کانک تراہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایتاء ذی القربی رشتے داروں کا حق ادا کرنا یعنی ان کی امداد کرنا ہے اسے حدیث میں صلہ رحمی کہا گیا ہے اور اس کی نہایت تاکید احادیث میں بیان کی گئی ہے۔ عدل واحسان کے بعد اس کا الگ سے ذکر یہ بھی صلہ رحمی کی اہمیت کو واضح کر رہا ہے۔ فحشاء سے مراد بےحیائی کے کام ہیں۔ آج کل بےحیائی اتنی عام ہوگئی ہے کہ اس کا نام تہذیب ترقی اور آرٹ قرار پا گیا ہے۔ یا تفریح کے نام پر اس کا جواز تسلیم کر لیا گیا ہے۔ تاہم محض خوشنما لیبل لگا لینے سے کسی چیز کی حقیقت نہیں بدل جاتی اسی طرح شریعت اسلامیہ نے زنا اور اس کے مقدمات کو رقص وسرود بےپردگی اور فیشن پرستی کو اور مرد و زن کے بےباکانہ اختلاط اور مخلوط معاشرت اور دیگر اس قسم کی خرافات کو بےحیائی قرار دیا ہے، ان کا کتنا بھی اچھا نام رکھ لیا جائے مغرب سے درآمد شدہ یہ خباثتیں جائز قرار نہیں پا سکتیں۔ منکر ہر وہ کام ہے جسے شریعت نے ناجائز قرار دیا ہے اور بغی کا مطلب ظلم وزیادتی کا ارتکاب۔ ایک حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ قطع رحمی اور بغی یہ دونوں جرم اللہ کو اتنے ناپسند ہیں کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی ان کی فوری سزا کا امکان غالب رہتا ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے۔ اور بےحیائی اور نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ﻇلم وزیادتی سے روکتا ہے، وه خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
بے شک اللہ عدل، احسان اور قرابتداروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور ظلم و زیادتی کرنے سے منع کرتا ہے اور تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک اللہ عدل ,احسان اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور بدکاری ,ناشائستہ حرکات اور ظلم سے منع کرتا ہے کہ شاید تم اسی طرح نصیحت حاصل کرلو
طاہر القادری Tahir ul Qadri
بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
بر ابر کا بدلہ
اللہ سبحا نہ وتعالیٰ اپنے بندوں کو عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور سلوک و احسان کی رہنمائی کرتا ہے گو بدلہ لینا بھی جائز ہے جیسے آیت ( وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ۭوَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ\012\06 ) 16 ۔ النحل ;126) میں فرمایا کہ اگر بدلہ لے سکو تو برابر برابر کا بدلہ لو لیکن اگر صبر و برداشت کرلو تو کیا ہی کہنا یہ بڑی مردانگی کی بات ہے۔ اور آیت میں فرمایا اس کا اجر خدا کے ہاں ملے گا۔ ایک اور آیت میں ہے زخموں کا قصاص ہے لیکن جو درگزر کر جائے اس کے گناہوں کی معافی ہے۔ پس عدل تو فرض، احسان نفل اور کلمہ توحید کی شہادت بھی عدل ہے۔ ظاہر باطن کی پاکیزگی بھی عدل ہے اور احسان یہ ہے کہ پاکی صفائی ظاہر سے بھی زیادہ ہو۔ اور فحشاء اور منکر یہ ہے کہ باطن میں کھوٹ ہو اور ظاہر میں بناوٹ ہو۔ وہ صلہ رحمی کا بھی حکم دیتا ہے۔ جیسے صاف لفظوں میں ارشاد آیت ( وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا 26) 17 ۔ الإسراء ;26) ۔ رشتے داروں، مسکینوں، مسافروں کو ان کا حق دو اور بےجا خرچ نہ کرو۔ محرمات سے وہ تمہیں روکتا ہے، برائیوں سے منع کرتا ہے ظاہری باطنی تمام برائیاں حرام ہیں۔ لوگوں پر ظلم و زیادتی حرام ہے۔ حدیث میں ہے کہ کوئی گناہ ظلم و زیادتی اور قطع رحمی سے بڑھ کر ایسا نہیں کہ دنیا میں بھی جلدی ہی اس کا بدلہ ملے اور اخرت میں بھی سخت پکڑ ہو۔ اللہ کے یہ احکام اور یہ نواہی تمہاری نصیحت کے لئے ہیں جو اچھی عادتیں ہیں، ان کا حکم قرآن نے دیا ہے اور جو بری خصلتیں لوگوں میں ہیں ان سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا ہے، بد خلقی اور برائی سے اس نے ممانعت کردی ہے۔ حدیث شریف میں ہے بہترین اخلاق اللہ کو پسند ہیں اور بد خلقی کو وہ مکروہ رکھتا ہے۔ اکثم بن صیفی کو جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت اطلاع ہوئی تو اس نے خدمت نبوی میں حاضر ہونے کی ٹھان لی لیکن اس کی قوم اس کے سر ہوگئی اور اسے روک لیا اس نے کہا اچھا مجھے نہیں جانے دیتے تو قاصد لاؤ جنہیں میں وہاں بھیجوں۔ دو شخص اس خدمت کی انجام دہی کے لئے تیار ہوئے یہاں آ کر انہوں نے کہا کہ ہم اکثم بن صیفی کے قاصد ہیں وہ آپ سے پوچھتا ہے کہ آپ کون ہیں اور کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ میں محمد بن عبداللہ ہوں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے سو ال کا جواب یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کا رسول۔ پھر آپ نے یہی آیت انہیں پڑھ کر سنائی انہوں نے کہا دوبارہ پڑھئے۔ آپ نے پھر پڑھی، یہاں تک کہ انہوں نے یاد کرلی پھر واپس جا کر اکثم کو خبر دی اور کہا اپنے نسب پر اس نے کوئی فخر نہیں کیا۔ صرف اپنا اور اپنے والد کا نام بتادیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہیں وہ بڑے نسب والے، مضر میں اعلی خاندان کے ہیں اور پھر یہ کلمات ہمیں تعلیم فرمائے جو آپ کی زبانی ہم نے سنے۔ یہ سن کر اکثم نے کہا وہ تو بڑی اچھی اور اعلی باتیں سکھاتے ہیں اور بری اور سفلی باتوں سے روکتے ہیں۔ میرے قبیلے کے لوگو تم اسلام کی طرف سبقت کرو تاکہ تم دوسروں پر سرداری کرو اور دوسروں کے ہاتھوں میں دمیں بن کر نہ رہ جاؤ۔ اس آیت کے شان نزول میں ایک حسن حدیث مسند امام احمد میں وارد ہوئی ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی انگنائی میں بھٹھے ہوئے تھے کہ عثمان بن مظعون آپ کے پاس سے گزرے آپ نے فرمایا بیٹھتے نہیں ہو ؟ وہ بیٹھ گیا، آپ اس کی طرف متوجہ ہو کر باتیں کر رہے تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دفعتہ اپنی نظریں آسمان کی جانب اٹھائیں کچھ دیر اوپر ہی کو دیکھتے رہے، پھر نگاہیں آہستہ آہستہ نیچی کیں اور اپنی دائیں جانب زمین کی طرف دیکھنے لگے اور اسی طرف آپ نے رخ بھی کرلیا اور اس طرح سر ہلانے لگے گویا کسی سے کچھ سمجھ رہے ہیں اور کوئی آپ سے کچھ کہہ رہا ہے تھوڑی دیر تک یہی حالت طاری رہی پھر آپ نے اپنی نگاہیں اونچی کرنی شروع کیں، یہاں تک کہ آسمان تک آپ کی نگاہیں پہنچیں پھر آپ ٹھیک ٹھاک ہوگئے اور اسی پہلی بیٹھک پر عثمان کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گئے۔ وہ یہ سب دیکھ رہا تھا، اس سے صبر نہ ہوسکا، پوچھا کہ حضرت آپ کے پاس کئی بار بیٹھنے کا اتفاق ہوا لیکن آج جیسا منظر تو کبھی نہیں دیکھا، آپ نے پوچھا تم نے کیا دیکھا ؟ اس نے کہا یہ کہ آپ نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی پھر نیچیں کرلی اور اپنے دائیں طرف دیکھنے لگے اور اسی طرف گھوم کر بیٹھ گئے، مجھے چھوڑ دیا، پھر اس طرح سر ہلانے لگے جیسے کوئی آپ سے کچھ کہہ رہا ہو۔ اور آپ اسے اچھی طرح سن سمجھ رہے ہوں۔ آپ نے فرمایا اچھا تم نے یہ سب کچھ دیکھا ؟ اس نے کہا برابر دیکھتا ہی رہا۔ آپ نے فرمایا میرے پاس اللہ کا نازل کردہ فرشتہ وحی لے کر آیا تھا اس نے کہا اللہ کا بھیجا ہوا ؟ آپ نے فرمایا ہاں، ہاں اللہ کا بھیجا ہوا۔ پوچھا پھر اس نے آپ سے کیا کہا ؟ آپ نے یہی آیت پڑھ سنائی۔ حضرت عثمان بن مظعون (رض) فرماتے ہیں اسی وقت میرے دل میں ایمان بیٹھ گیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت نے میرے دل میں گھر کرلیا۔ ایک اور روایت میں حضرت عثمان بن ابو العاص (رض) سے مروی ہے کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا جو آپ نے اپنی نگاہیں اوپر کو اٹھائیں اور فرمایا جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس آئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اس آیت کو اس سورت کی اس جگہ رکھوں یہ روایت بھی صحیح ہے واللہ ! علم۔