وَلَـقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِيْنَۙ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
حجر کے لوگ بھی رسولوں کی تکذیب کر چکے ہیں
English Sahih:
And certainly did the companions of al-Hijr [i.e., the Thamud] deny the messengers.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
حجر کے لوگ بھی رسولوں کی تکذیب کر چکے ہیں
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور بیشک حجر والو ں نے رسولوں کو جھٹلایا
احمد علی Ahmed Ali
او ربے شک حجر والوں نے رسولوں کو جھٹلایا تھا
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور حجر والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا (١)
٨٠۔١ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود کی بستیوں کا نام تھا۔ انہیں ( اَصْحٰبُ الْحِـجْرِ) 15۔ الحجر;80) (حجر والے) کہا گیا ہے۔ یہ بستی مدینہ اور تبوک کے درمیان تھی۔ انہوں نے اپنے پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا۔ لیکن یہاں اللہ تعالٰی نے فرمایا ' انہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا، یہ اس لئے کہ ایک پیغمبر کی تکذیب ایسے ہی ہے جیسے سارے پیغمبروں کی تکذیب۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور (وادی) حجر کے رہنے والوں نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور حِجر والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور بے شک حجر کے لوگوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اصحاب حجر نے بھی مرسلین کی تکذیب کی
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور بیشک وادئ حجر کے باشندوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
آل ثمود کی تباہیاں
حجر والوں سے مراد ثمودی ہیں جنہوں نے اپنے نبی حضرت صالح (علیہ السلام) کو جھٹلایا تھا اور ظاہر ہے کہ ایک نبی کا جھٹلانے والا گویا سب نبیوں کا انکار کرنے والا ہے۔ اسی لئے فرمایا گیا کہ انہوں نے نبیوں کو جھٹلایا۔ ان کے پاس ایسے معجزے پہنچے جن سے حضرت صالح (علیہ السلام) کی سچائی ان پر کھل گئی۔ جیسے کہ ایک سخت پتھر کی چٹان سے اونٹنی کا نکلنا جو ان کے شہروں میں چرتی چگتی تھی اور ایک دن وہ پانی پیتی تھی ایک دن شہروں کے جانور۔ مگر پھر بھی یہ لوگ گردن کش ہی رہے بلکہ اس اونٹنی کو مار ڈالا۔ اس وقت حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا بس اب تین دن کے اندر اندر قہرے الہی نازل ہوگا۔ یہ بالکل سچا وعدہ ہے اور اٹل عذاب ہے ان لوگوں نے اللہ کی بتلائی ہوئی راہ پر بھی اپنے اندھاپے کو ترجیح دی۔ یہ لوگ صرف اپنی قوت جتانے اور ریا کاری ظاہر کرنے کے واسطے تکبر و تجبر کے طور پر پہاڑوں میں مکان تراشتے تھے۔ کسی خوف کے باعث یا ضرورتا یہ چیز نہ تھی۔ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک جاتے ہوئے ان کے مکانوں سے گزرے تو آپ نے سر پر کپڑا ڈال لیا اور سواری کو تیز چلایا اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ جن پر عذاب الہی اترا ہے ان کی بستیوں سے روتے ہوئے گزرو۔ اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی شکل بنا کر چلو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں عذابوں کا شکار تم بھی بن جاؤ آخر ان پر ٹھیک چوتھے دن کی صبح عذاب الہی بصورت چنگھاڑ آیا۔ اس وقت ان کی کمائیاں کچھ کام نہ آئیں۔ جن کھیتوں اور پھولوں کی حفاظت کے لئے اور انہیں بڑھانے کے لئے ان لوگوں نے اونٹنی کا پانی پینا نہ پسند کر کے اسے قتل کردیا وہ آج بےسود ثابت ہوئے اور امر رب اپنا کام کر گیا۔