اِذْهَبُوْا بِقَمِيْصِىْ هٰذَا فَاَلْقُوْهُ عَلٰى وَجْهِ اَبِىْ يَأْتِ بَصِيْرًاۚ وَأْتُوْنِىْ بِاَهْلِكُمْ اَجْمَعِيْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
جاؤ، میرا یہ قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے منہ پر ڈال دو، اُن کی بینائی پلٹ آئے گی، اور اپنے سب اہل و عیال کو میرے پاس لے آؤ"
English Sahih:
Take this, my shirt, and cast it over the face of my father; he will become seeing. And bring me your family, all together."
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
جاؤ، میرا یہ قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے منہ پر ڈال دو، اُن کی بینائی پلٹ آئے گی، اور اپنے سب اہل و عیال کو میرے پاس لے آؤ"
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
میرا یہ کرتا لے جاؤ اسے میرے باپ کے منہ پر ڈالو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی اور اپنے سب گھر بھر کو میرے پاس لے آ ؤ،
احمد علی Ahmed Ali
یہ کرتہ میرا لے جاؤ اور اسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دو کہ وہ بینا ہوجائے اور میرے پاس اپنے سب کنبے کو لے آؤ
أحسن البيان Ahsanul Bayan
میرا یہ کرتا تم لے جاؤ اور اسے میرے والد کے منہ پر ڈال دو کہ وہ دیکھنے لگیں (١) اور آجائیں اور اپنے تمام خاندان کو میرے پاس لے آؤ (٢)۔
٩٣۔١ قمیص کے چہرے پر پڑنے سے آنکھوں کی بینائی کا بحال ہونا، ایک اعجاز اور کرامت کے طور پر تھا۔
٩٣۔٢ یہ یوسف علیہ السلام نے اپنے پورے خاندان کو مصر آنے کی دعوت دی۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
یہ میرا کرتہ لے جاؤ اور اسے والد صاحب کے منہ پر ڈال دو۔ وہ بینا ہو جائیں گے۔ اور اپنے تمام اہل وعیال کو میرے پاس لے آؤ
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
میرا یہ کرتا تم لے جاؤ اور اسے میرے والد کے منھ پر ڈال دو کہ وه دیکھنے لگیں، اور آجائیں اور اپنے تمام خاندان کو میرے پاس لےآؤ
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
(بعد ازاں) کہا میری قمیص لے جاؤ اور اسے میرے والد کے چہرے پر ڈال دو ان کی بینائی پلٹ آئے گی (وہ بینا ہو جائیں گے) اور پھر اپنے سب اہل و عیال کو (یہاں) میرے پاس لے آؤ۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جاؤ میری قمیض لے کر جاؤ اور بابا کے چہرہ پر ڈال دو کہ ان کی بصارت پلٹ آئے گی اور اس مرتبہ اپنے تمام گھر والوں کو ساتھ لے کر آنا
طاہر القادری Tahir ul Qadri
میرا یہ قمیض لے جاؤ، سو اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا، وہ بینا ہو جائیں گے، اور (پھر) اپنے سب گھر والوں کو میرے پاس لے آؤ،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
چونکہ اللہ کے رسول حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنے رنج وغم میں روتے روتے نابینا ہوگئے تھے، اس لئے حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ میرا یہ کرتہ لے کر تم ابا کے پاس جاؤ، اسے ان کے منہ پر ڈالتے ہی انشاء اللہ ان کی نگاہ روشن ہوجائے گی۔ پھر انہیں اور اپنے گھرانے کے تمام اور لوگوں کو یہیں میرے پاس لے آؤ۔ ادھر یہ قافلہ مصر سے نکلا، ادھر اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو حضرت یوسف کی خوشبو بہنچا دی تو آپ نے اپنے ان بچوں سے جو آپ کے پاس تھے فرمایا کہ مجھے تو میرے پیارے فرزند یوسف کی خوشبو آرہی ہے لیکن تم تو مجھے سترا بہترا کم عقل بڈھا کہہ کر میری اس بات کو باور نہیں کرنے کے۔ ابھی قافلہ کنعان سے آٹھ دن کے فاصلے پر تھا جو بحکم الہی ہوا نے حضرت یعقوب کو حضرت یوسف کے پیراہن کی خوشبو پہنچا دی۔ اس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) کی گمشدگی کی مدت اسی سال کی گزر چکی تھی اور قافلہ اسی فرسخ آپ سے دور تھا۔ لیکن بھائیوں نے کہا آپ تو یوسف کی محبت میں غلطی میں پڑے ہوئے ہیں نہ غم آپ کے دل سے دور ہو نہ آپ کو تسلی ہو۔ ان کا یہ کلمہ بڑا سخت تھا کسی لائق اولاد کو لائق نہیں کہ اپنے باپ سے یہ کہے نہ کسی امتی کو لائق ہے کہ اپنی نبی سے یہ کہے .