Skip to main content

فَلَمَّا اسْتَاۡيْــَٔسُوْا مِنْهُ خَلَصُوْا نَجِيًّا ۗ قَالَ كَبِيْرُهُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْۤا اَنَّ اَبَاكُمْ قَدْ اَخَذَ عَلَيْكُمْ مَّوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُّمْ فِىْ يُوْسُفَ ۚ فَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ حَتّٰى يَأْذَنَ لِىْۤ اَبِىْۤ اَوْ يَحْكُمَ اللّٰهُ لِىْ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحٰكِمِيْنَ

So when
فَلَمَّا
پھر جب
they despaired
ٱسْتَيْـَٔسُوا۟
وہ مایوس ہوگئے
of him
مِنْهُ
اس سے
they secluded themselves
خَلَصُوا۟
اکیلے بیٹھے
(in) private consultation
نَجِيًّاۖ
سرگوشیاں کرنے کو/ مشورہ کرنے کو
Said
قَالَ
کہا
the eldest among them
كَبِيرُهُمْ
ان کے بڑے نے
"Do not
أَلَمْ
کیانہیں
you know
تَعْلَمُوٓا۟
تم جانتے ہو
that
أَنَّ
کہ
your father
أَبَاكُمْ
تمہارے والد نے
has taken
قَدْ
تحقیق
has taken
أَخَذَ
لیا
upon you
عَلَيْكُم
تم پر
a promise
مَّوْثِقًا
پکا وعدہ
by
مِّنَ
نام سے
Allah
ٱللَّهِ
اللہ کے
and before
وَمِن
اور اس سے
and before
قَبْلُ
پہلے
that
مَا
جو
you failed
فَرَّطتُمْ
کوتاہی کی تم نے
concerning
فِى
میں
Yusuf?
يُوسُفَۖ
یوسف کے معاملے
So never
فَلَنْ
تو ہرگز نہ
will I leave
أَبْرَحَ
میں ٹلوں گا
the land
ٱلْأَرْضَ
اس زمین سے
until
حَتَّىٰ
یہاں تک کہ
permits
يَأْذَنَ
اجازت دے
me
لِىٓ
مجھ کو
my father
أَبِىٓ
میرا باپ
or
أَوْ
یا
Allah decides
يَحْكُمَ
فیصلہ کردے
Allah decides
ٱللَّهُ
اللہ
for me
لِىۖ
میرے لئے
and He
وَهُوَ
اور وہ
(is) the Best
خَيْرُ
بہترین
(of) the judges
ٱلْحَٰكِمِينَ
فیصلہ کرنے والا ہے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

جب وہ یوسفؑ سے مایوس ہو گئے تو ایک گوشے میں جا کر آپس میں مشورہ کرنے لگے ان میں جو سب سے بڑا تھا وہ بولا "تم جانتے نہیں ہو کہ تمہارے والد تم سے خدا کے نام پر کیا عہد و پیمان لے چکے ہیں اور اس سے پہلے یوسفؑ کے معاملہ میں جو زیادتی تم کر چکے ہو وہ بھی تم کو معلوم ہے اب میں تو یہاں سے ہرگز نہ جاؤں گا جب تک کہ میرے والد مجھے اجازت نہ دیں، یا پھر اللہ ہی میرے حق میں کوئی فیصلہ فرما دے کہ وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے

English Sahih:

So when they had despaired of him, they secluded themselves in private consultation. The eldest of them said, "Do you not know that your father has taken upon you an oath by Allah and [that] before you failed in [your duty to] Joseph? So I will never leave [this] land until my father permits me or Allah decides for me, and He is the best of judges.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

جب وہ یوسفؑ سے مایوس ہو گئے تو ایک گوشے میں جا کر آپس میں مشورہ کرنے لگے ان میں جو سب سے بڑا تھا وہ بولا "تم جانتے نہیں ہو کہ تمہارے والد تم سے خدا کے نام پر کیا عہد و پیمان لے چکے ہیں اور اس سے پہلے یوسفؑ کے معاملہ میں جو زیادتی تم کر چکے ہو وہ بھی تم کو معلوم ہے اب میں تو یہاں سے ہرگز نہ جاؤں گا جب تک کہ میرے والد مجھے اجازت نہ دیں، یا پھر اللہ ہی میرے حق میں کوئی فیصلہ فرما دے کہ وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

پھر جب اس سے نا امید ہوئے الگ جاکر سرگوشی کرنے لگے، ان کا بڑا بھائی بولا کیا تمہیں خبر نہیں کہ تمہارے باپ نے تم سے اللہ کا عہد لے لیا تھا اور اس سے پہلے یوسف کے حق میں تم نے کیسی تقصیر کی تو میں یہاں سے نہ ٹلوں گا یہاں تک کہ میرے باپ اجازت دیں یا اللہ مجھے حکم فرمائے اور اس کا حکم سب سے بہتر،

احمد علی Ahmed Ali

پھر جب اس سےناامید ہوئے مشورہ کرنے کے لیے اکیلے ہو بیٹھے ان میں سے بڑے نے کہا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے باپ نے تم سے الله کا عہد لیا تھا اور پہلے جویوسف کے حق میں قصور کر چکے ہو سو میں تو اس ملک سے ہرگز نہیں جاؤں گا یہاں تک کہ میرا با پ مجھے حکم دے یا میرے لیے الله کوئی حکم فرمائے اور وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

جب یہ اس سے مایوس ہوگئے تو تنہائی میں بیٹھ کر مشورہ کرنے لگے (١) ان میں جو سب سے بڑا تھا اس نے کہا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کی قسم لے کر پختہ قول قرار لیا ہے اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں تم کوتاہی کر چکے ہو۔ پس میں تو اس سرزمین سے نہ ٹلوں گا جب تک کہ والد صاحب خود مجھے اجازت نہ دیں (٢) یا اللہ تعالٰی میرے اس معاملے کا فیصلہ کر دے، وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

٨٠۔١ کیونکہ بنیامین کو چھوڑ کر جانا ان کے لئے کٹھن مرحلا تھا، وہ باپ کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے تھے۔ اس لئے باہم مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے؟
٨٠۔٢ اس کے بڑے بھائی اس صورت حال میں باپ کا سامنے کرنے کی اپنے اندر سکت اور ہمت نہیں پائی، تو صاف کہہ دیا کہ میں تو یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک خود والد صاحب تفتیش کر کے میری بےگناہی کا یقین نہ کرلیں اور مجھے آنے کی اجازت نہ دیں۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہو کر صلاح کرنے لگے۔ سب سے بڑے نے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے والد نے تم سے خدا کا عہد لیا ہے اور اس سے پہلے بھی تم یوسف کے بارے میں قصور کر چکے ہو تو جب تک والد صاحب مجھے حکم نہ دیں میں تو اس جگہ سے ہلنے کا نہیں یا خدا میرے لیے کوئی اور تدبیر کرے۔ اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

جب یہ اس سے مایوس ہو گئے تو تنہائی میں بیٹھ کر مشوره کرنے لگے۔ ان میں جو سب سے بڑا تھا اس نے کہا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کی قسم لے کر پختہ قول قرار لیا ہے اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں تم کوتاہی کر چکے ہو۔ پس میں تو اس سرزمین سے نہ ٹلوں گا جب تک کہ والد صاحب خود مجھے اجازت نہ دیں یا اللہ تعالیٰ میرے معاملے کا فیصلہ کر دے، وہی بہترین فیصلہ کرنے واﻻ ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

پھر جب وہ لوگ اس (یوسف) سے مایوس ہوگئے تو علیٰحدہ جاکر باہم سرگوشی (مشورہ) کرنے لگے جو ان میں (سب سے) بڑا تھا اس نے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ (بنیامین کے بارے میں) خدا کے نام پر تم سے عہد و پیمان لے چکے ہیں اور اس سے پہلے یوسف(ع) کے بارے میں جو تقصیر تم کر چکے ہو (وہ بھی تم جانتے ہو) اس لئے میں تو اس سر زمین کو نہیں چھوڑوں گا جب تک میرا باپ مجھے اجازت نہ دے یا پھر اللہ میرے لئے کوئی فیصلہ نہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اب جب وہ لوگ یوسف کی طرف سے مایوس ہوگئے تو الگ جاکر مشورہ کرنے لگے تو سب سے بڑے نے کہا کہ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارے باپ نے تم سے خدائی عہد لیا ہے اور اس سے پہلے بھی تم یوسف کے بارے میں کوتاہی کرحُکے ہو تو اب میں تو اس سرزمین کو نہ چھوڑوں گا یہاں تک کہ والد محترم اجازت دے دیں یا خدا میرے حق میں کوئی فیصلہ کردے کہ وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

پھر جب وہ یوسف (علیہ السلام) سے مایوس ہوگئے تو علیحدگی میں (باہم) سرگوشی کرنے لگے، ان کے بڑے (بھائی) نے کہا: کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ نے تم سے اﷲ کی قسم اٹھوا کر پختہ وعدہ لیا تھا اور اس سے پہلے تم یوسف کے حق میں جو زیادتیاں کر چکے ہو (تمہیں وہ بھی معلوم ہیں)، سو میں اس سرزمین سے ہرگز نہیں جاؤں گا جب تک مجھے میرا باپ اجازت (نہ) دے یا میرے لئے اﷲ کوئی فیصلہ فرما دے، اور وہ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

جب برادران یوسف اپنے بھائی کے چھٹکار سے مایوس ہوگئے، انہیں اس بات نے شش وپنچ میں ڈال دیا کہ ہم والد سے سخت عہد پیمان کر کے آئے ہیں کہ بنیامین کو آپ کے حضور میں پہنچا دیں گے۔ اب یہاں سے یہ کسی طرح چھوٹ نہیں سکتے۔ الزام ثابت ہوچکا ہماری اپنی قراد داد کے مطابق وہ شاہی قیدی ٹھر چکے اب بتاؤ کیا کیا جائے اس آپس کے مشورے میں بڑے بھائی نے اپنا خیال ان لفظوں میں ظاہر کیا کہ تمہیں معلوم ہے کہ اس زبردست ٹہوس وعدے کے بعد جو ہم ابا جان سے کر کے آئے ہیں، اب انہیں منہ دکھانے کے قابل تو نہیں رہے نہ یہ ہمارے بس کی بات ہے کہ کسی طرح بنیامین کو شاہی قید سے آزاد کرلیں پھر اس وقت ہمیں اپنا پہلا قصور اور نادم کر رہا ہے جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں ہم سے اس سے پہلے سرزد ہوچکا ہے پس اب میں تو یہیں رک جاتا ہوں۔ یہاں تک کہ یا تو والد صاحب میرا قصور معاف فرما کر مجھے اپنے پاس حاضر ہونے کی اجازت دیں یا اللہ تعالیٰ مجھے کوئی فیصلہ بجھا دے کہ میں یا تو لڑ بھڑ کر اپنے بھائی کو لے کر جاؤں یا اللہ تعالیٰ کوئی اور صورت بنا دے۔ کہا گیا ہے کہ ان کا نام روبیل تھا یا یہودا تھا یہی تھے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جب اور بھائیوں نے قتل کرنا جاہا تھا انہوں نے روکا تھا۔ اب یہ اپنے اور بھائیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ تم ابا جی کے پاس جاؤ۔ انہیں حقیقت حال سے مطلع کرو۔ ان سے کہو کہ ہمیں کیا خبر تھی کہ یہ چوری کرلیں گے اور چوری کا مال ان کے پاس موجود ہے ہم سے تو مسئلے کی صورت پوچھی گئی ہم نے بیان کردی۔ آپ کو ہماری بات کا یقین نہ ہو تو اہل مصر سے دریافت فرما لیجئے جس قافلے کے ساتھ ہم آئے ہیں اس سے پوچھ لیجئے۔ کہ ہم نے صداقت، امانت، حفاظت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اور ہم جو کچھ عرض کر رہے ہیں، وہ بالکل راستی پر مبنی ہے۔