وَجَاۤءَتْ سَيَّارَةٌ فَاَرْسَلُوْا وَارِدَهُمْ فَاَدْلٰى دَلْوَهٗ ۗ قَالَ يٰبُشْرٰى هٰذَا غُلٰمٌ ۗ وَاَسَرُّوْهُ بِضَاعَةً ۗ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
ادھر ایک قافلہ آیا اور اُس نے اپنے سقے کو پانی لانے کے لیے بھیجا سقے نے جو کنویں میں ڈول ڈالا تو (یوسفؑ کو دیکھ کر) پکار اٹھا "مبارک ہو، یہاں تو ایک لڑکا ہے" ان لوگوں نے اس کو مال تجارت سمجھ کر چھپا لیا، حالانکہ جو کچھ وہ کر رہے تھے خدا اس سے باخبر تھا
English Sahih:
And there came a company of travelers; then they sent their water drawer, and he let down his bucket. He said, "Good news! Here is a boy." And they concealed him, [taking him] as merchandise; and Allah was Knowing of what they did.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
ادھر ایک قافلہ آیا اور اُس نے اپنے سقے کو پانی لانے کے لیے بھیجا سقے نے جو کنویں میں ڈول ڈالا تو (یوسفؑ کو دیکھ کر) پکار اٹھا "مبارک ہو، یہاں تو ایک لڑکا ہے" ان لوگوں نے اس کو مال تجارت سمجھ کر چھپا لیا، حالانکہ جو کچھ وہ کر رہے تھے خدا اس سے باخبر تھا
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور ایک قافلہ آیا انہوں نے اپنا پانی لانے والا بھیجا تو اس نے اپنا ڈول ڈال بولا آہا کیسی خوشی کی بات ہے یہ تو ایک لڑکا ہے اور اسے ایک پونجی بناکر چھپالیا اور اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں،
احمد علی Ahmed Ali
اور ایک قافلہ آیا پھر انہوں نے اپنا پانی بھرنے والا بھیجا اس نے اپنا ڈول لٹکایا کہا کیا خوشی کی بات ہے یہ ایک لڑکا ہے اور اسے تجارت کا مال سمجھ کر چھپا لیا اور الله خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کر رہے تھے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور ایک قافلہ آیا اور انہوں نے اپنے پانی لانے والے کو بھیجا اس نے اپنا ڈول لٹکا دیا، کہنے لگا واہ واہ خوشی کی بات ہے یہ تو ایک لڑکا ہے (١) انہوں نے اسے مال تجارت قرار دے کر چھپا لیا (٢) اور اللہ تعالٰی اس سے باخبر تھا جو وہ کر رہے تھے۔
١٩۔١ وارد اس شخص کو کہتے ہیں جو قافلے کے لئے پانی وغیرہ انتظام کرنے کی غرض سے قافلے کے آگے آگے چلتا ہے تاکہ مناسب جگہ دیکھ کر قافلے کو ٹھیرایا جا سکے یہ وراد (جب کنویں پر آیا اور اپنا ڈول نیچے لٹکایا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کی رسی پکڑ لی، وارد نے ایک خوش شکل بچہ دیکھا تو اسے اوپر کھنچ لیا اور بڑا خوش ہوا۔ ١٩۔۲بضاعۃ سامان تجارت کو کہتے ہیں اسروہ کا فاعل کون ہے؟ یعنی یوسف کو سامان تجارت سمجھ کر چھپانے والا کون ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ حافظ ابن کثیر نے برادران یوسف علیہ السلام کو فاعل قرار دیا ہے مطلب یہ ہے کہ جب ڈول کے ساتھ یوسف علیہ السلام بھی کنویں سے باہر نکل آئے تو وہاں یہ بھائی بھی موجود تھے، تاہم انہوں نے اصل حقیقت کو چھپائے رکھا، یہ نہیں کہا کہ یہ ہمارا بھائی ہے اور حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی قتل کے اندیشے سے اپنا بھائی ہونا ظاہر نہیں کیا بلکہ بھائیوں نے انہیں فروختنی قرار دیا تو خاموش رہے اور اپنا فروخت ہونا پسند کر لایا۔ چنانچہ اس وارد نے اہل قافلہ کو یہ خوشخبری سنائی کہ ایک بچہ فروخت ہو رہا ہے۔ مگر یہ بات سیاق سے میل کھاتی نظر نہیں آتی۔ ان کے برخلاف امام شوکانی نے اسروہ کا فاعل وارد اور اس کے ساتھیوں کو قرار دیا ہے کہ انہوں نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ یہ بچہ کنویں سے نکلا ہے کیونکہ اس طرح تمام اہل قافلہ اس سامان تجارت میں شریک ہو جاتے بلکہ اہل قافلہ کو انہوں نے جا کر یہ بتلایا کہ کنویں کے مالکوں نے یہ بچہ ان کے سپرد کیا ہے تاکہ اسے وہ مصر جا کر بیچ دیں۔ مگر اقرب ترین بات یہ ہے کہ اہل قافلہ نے بچے کو سامان تجارت قرار دے کر چھپا لیا کہ کہیں اس کے عزیز واقارب اس کی تلاش میں نہ آ پہنچیں۔ اور یوں لینے کے دینے پڑ جائیں کیونکہ بچہ ہونا اور کنویں میں پایا جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ کہیں قریب ہی کا رہنے والا ہے اور کھیلتے کودتے آ گرا ہے۔
١٩۔۳یعنی یوسف علیہ السلام کے ساتھ یہ جو کچھ ہو رہا تھا، اللہ کو اس کا علم تھا۔ لیکن اللہ نے یہ سب کچھ اس لیے ہونے دیا کہ تقدیر الہی بروئے کار آئے۔ علاوہ ازیں اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اشارہ ہے یعنی اللہ تعالٰی اپنے پیغمبر کو بتلا رہا ہے کہ آپ کی قوم کے لوگ یقیناً ایذا پہنچا رہے ہیں اور میں انہیں اس سے روکنے پر قادر بھی ہوں۔ لیکن میں اسی طرح انہیں مہلت دے رہا ہوں جس طرح برادران یوسف علیہ السلام کو مہت دی تھی۔ اور پھر بالآخر میں نے یوسف علیہ السلام کو مصر کے تخت پر جا بٹھایا اور اس کے بھائیوں کو عاجز ولاچار کر کے اس کے دربار میں کھڑا کر دیا اے پیغمبر ایک وقت آئے گا کہ آپ بھی اسی طرح سرخرو ہوں گے اور سرداران قریش آپ کے اشارہ ابرو اور جنبش لب کے منتظر ہوں گے۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر یہ وقت جلد ہی آ پہنچا۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
(اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب) ایک قافلہ آوارد ہوا اور انہوں نے (پانی کے لیے) اپنا سقا بھیجا۔ اس نے کنویں میں ڈول لٹکایا (تو یوسف اس سے لٹک گئے) وہ بولا زہے قسمت یہ تو (نہایت حسین) لڑکا ہے۔ اور اس کو قیمتی سرمایہ سمجھ کر چھپا لیا اور جو کچھ وہ کرتے تھے خدا کو سب معلوم تھا
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور ایک قافلہ آیا اور انہوں نے اپنے پانی ﻻنے والے کو بھیجا اس نے اپنا ڈول لٹکا دیا، کہنے لگا واه واه خوشی کی بات ہے یہ تو ایک لڑکا ہے، انہوں نے اسے مال تجارت قرار دے کر چھپا دیا اور اللہ تعالیٰ اس سے باخبر تھا جو وه کر رہے تھے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور ایک قافلہ آیا (اور وہاں اترا) تو انہوں نے (پانی لانے کیلئے) اپنا سقا بھیجا۔ پس اس نے جونہی اپنا ڈول ڈالا۔ (تو یوسف اس میں بیٹھ گئے جب ڈول کھینچا) تو پکار اٹھا۔ مبارک باد یہ تو ایک لڑکا ہے اور ان لوگوں نے اسے سرمایۂ تجارت سمجھ کر چھپا رکھا اور وہ لوگ جو کچھ کر رہے تھے اللہ اس سے خوب واقف تھا۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور وہاں ایک قافلہ آیا جس کے پانی نکالنے والے نے اپنا ڈول کنویں میں ڈالا تو آواز دی ارے واہ یہ تو بچہ ہے اور اسے ایک قیمتی سرمایہ سمجھ کر چھپالیا اور اللہ ان کے اعمال سے خوب باخبر ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور (ادھر) راہ گیروں کا ایک قافلہ آپہنچا تو انہوں نے اپنا پانی بھرنے والا بھیجا سو اس نے اپنا ڈول (اس کنویں میں) لٹکایا، وہ بول اٹھا: خوشخبری ہو یہ ایک لڑکا ہے، اور انہوں نے اسے قیمتی سامانِ تجارت سمجھتے ہوئے چھپا لیا، اور اﷲ ان کاموں کو جو وہ کر رہے تھے خوب جاننے والا ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
کنویں سے بازار مصر تک
بھائی تو حضرت یوسف کو کنویں میں ڈال کر چل دیئے۔ یہاں تین دن آپ کو اسی اندھیرے کنویں میں اکیلے گذر گئے۔ محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ اس کنویں میں گرا کر بھائی تماشا دیکھنے کے لیے اس کے آس پاس ہی دن بھر پھرتے رہے کہ دیکھیں وہ کیا کرتا ہے اور اس کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے ؟ قدرت اللہ کی کہ ایک قافلہ وہیں سے گزرا۔ انہوں نے اپنے سقے کو پانی کے لے بھیجا۔ اس نے اسی کونے میں ڈول ڈالا، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس کی رسی کو مضبوط تھام لیا اور بجائے پانی کے آپ باہر نکلے۔ وہ آپ کو دیکھ کر باغ باغ ہو گیارہ نہ سکا با آواز بلند کہہ اٹھا کہ لو سبحان اللہ یہ تو نوجوان بچہ آگیا۔ دوسری قرأت اس کی یا بشرای بھی ہے۔ سدی کہتے ہیں بشریٰ سقے کے بھیجنے والے کا نام بھی تھا اس نے اس کا نام لے کر پکار کر خبر دی کہ میرے ڈول میں تو ایک بچہ آیا ہے۔ لیکن سدی کا یہ قول غریب ہے۔ اس طرح کی قرآت پر بھی وہی معنی ہوسکتے ہیں اس کی اضافت اپنے نفس کی طرف ہے اور یائے اضافت ساقط ہے۔ اسی کی تائید قرآت یا بشرای سے ہوتی ہے جیسے عرب کہتے یا نفس اصبری اور یا غلام اقبل اضافت کے حرف کو ساقط کر کے۔ اس وقت کسرہ دینا بھی جائز ہے اور رفع دینا بھی۔ پس وہ اسی قبیل سے ہے اور دوسری قرآت اس کی تفسیر ہے۔ واللہ اعلم۔ ان لوگوں نے آپ کو بحیثیت پونجی کے چھپالیا قافلے کے اور لوگوں پر اس راز کا ظاہر نہ کیا بلکہ کہہ دیا کہ ہم نے کنویں کے پاس کے لوگوں سے اسے خریدا ہے، انہوں نے ہمیں اسے دے دیا ہے تاکہ وہ بھی اپنا حصہ نہ ملائیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ برادران یوسف نے شناخت چھپائی اور حضرت یوسف نے بھی اپنے آپ کو ظاہر نہ کیا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ کہیں مجھے قتل ہی نہ کردیں۔ اس لیے چپ چاپ بھائیوں کے ہاتھوں آپ بک گئے۔ سقے سے انہوں نے کہا اس نے آواز دے کر بلا لیا انہوں نے اونے پونے یوسف (علیہ السلام) کو ان کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ اللہ کچھ ان کی اس حرکت سے بیخبر نہ تھا وہ خوب دیکھ بھال رہا تھا وہ قادر تھا کہ اس وقت اس بھید کو ظاہر کر دے لیکن اس کی حکمتیں اسی کے ساتھ ہیں اس کی تقدیر یونہی یعنی جاری ہوئی تھی۔ خلق و امرا اسی کا ہے وہ رب العالمین برکتوں والا ہے اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ایک طرح تسکین دی گئی ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ قوم آپ کو دکھ دے رہی ہے میں قادر ہوں کہ آپ کو ان سے چھڑا دوں انہیں غارت کردوں لیکن میرے کام حکمت کے ساتھ ہیں دیر ہے اندھیر نہیں بےفکر رہو، عنقریب غالب کروں گا اور رفتہ رفتہ ان کو پست کردوں گا۔ جیسے کہ یوسف اور ان کے بھائیوں کے درمیان میری حکمت کا ہاتھ کام کرتا رہا۔ یہاں تک کا آخر انجام حضرت یوسف کے سامنے انہیں جھکنا پڑا اور ان کے مرتبے کا اقرار کرنا پڑا۔ بہت تھوڑے مول پر بھائیوں نے انہیں بیچ دیا۔ ناقص چیز کے بدلے بھائی جیسا بھائی دے دیا۔ اور اس کی بھی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی بلکہ اگر ان سے بالکل بلا قیمت مانگا جاتا تو بھی دے دیتے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ قافلے والوں نے اسے بہت کم قیمت پر خریدا۔ لیکن یہ کچھ زیادہ درست نہیں اس لیے کہ انہوں نے تو اسے دیکھ کر خوشیاں منائی تھی اور بطور پونجی اسے پوشیدہ کردیا تھا۔ پس اگر انہیں اس کی بےرغبتی ہوتی تو وہ ایسا کیوں کرتے ؟ پس ترجیح اسی بات کو ہے کہ یہاں مراد بھائیوں کا حضرت یوسف کو گرے ہوئے نرخ پر بیچ ڈالنا ہے۔ نجس سے مراد حرام اور ظلم بھی ہے۔ لیکن یہاں وہ مراد نہیں لی گئی۔ کیونکہ اس قیمت کی حرمت کا علم تو ہر ایک کو ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نبی بن نبی بن نبی خلیل الرحمن (علیہ السلام) تھا۔ پس آپ تو کریم بن کریم بن کریم بن کریم تھے۔ پس یہاں مراد نقص کم تھوڑی اور کھوٹی بلکہ برائے نام قیمت پر بیچ ڈالنا ہے باوجود اس کے وہ ظلم و حرام بھی تھا۔ بھائی کو بیچ رہے ہیں اور وہ بھی کوڑیوں کے مول۔ چند درہموں کے بدلے بیس یا بائیس یا چالیس درہم کے بدلے۔ یہ دام لے کر آپس میں بانٹ لیے۔ اور اس کی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی انہیں نہیں معلوم تھا کہ اللہ کے ہاں ان کی کیا قدر ہے ؟ وہ کیا جانتے تھے کہ یہ اللہ کے نبی بننے والے ہں۔ حضرت مجاہد (رح) کہتے ہیں کہ اتنا سب کچھ کرنے پر بھی صبر نہ ہوا قافلے کے پیچھے ہو لئے اور ان سے کہنے لگے دیکھو اس غلام میں بھاگ نکلنے کی عادت ہے، اسے مضبوط باندھ دو ، کہیں تمہارے ہاتھوں سے بھی بھاگ نہ جائے۔ اسی طرح باندھے باندھے مصر تک پہنچے اور وہاں آپ کو بازار میں لیجا کر بیچنے لگے۔ اس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے جو لے گا وہ خوش ہوجائے گا۔ پس شاہ مصر نے آپ کو خرید لیا وہ تھا بھی مسلمان۔