وَلَمَّا جَاۤءَتْ رُسُلُـنَا لُوْطًا سِىْۤءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّقَالَ هٰذَا يَوْمٌ عَصِيْبٌ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اور جب ہمارے فرشتے لوطؑ کے پاس پہنچے تو اُن کی آمد سے وہ بہت گھبرایا اور دل تنگ ہوا اور کہنے لگا کہ آج بڑی مصیبت کا دن ہے
English Sahih:
And when Our messengers, [the angels], came to Lot, he was anguished for them and felt for them great discomfort and said, "This is a trying day."
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اور جب ہمارے فرشتے لوطؑ کے پاس پہنچے تو اُن کی آمد سے وہ بہت گھبرایا اور دل تنگ ہوا اور کہنے لگا کہ آج بڑی مصیبت کا دن ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور جب لوط کے یہاں ہمارے فرشتے آئے اسے ان کا غم ہوا او ر ان کے سبب دل تنگ ہوا اور بولا یہ بڑی سختی کا دن ہے
احمد علی Ahmed Ali
اور جب ہمارے بھیجے ہوئے لوط کے پاس پہنچے تو ان کے آنے سے غمگین ہوا اور دل میں تنگ ہوا اور کہا آج کا دن بڑا سخت ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجہ سے بہت غمگین ہوگئے اور دل ہی دل میں کڑھنے لگے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مصیبت کا دن ہے (١)
٧٧۔١ حضرت لوط علیہ السلام کی اس سخت پریشانی کی وجہ مفسرین نے لکھی ہے کہ یہ فرشتے نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے، جو بےریش تھے، جس سے حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کی عادت قبیحہ کے پیش نظر سخت خطرہ محسوس کیا۔ کیونکہ ان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ آنے والے یہ نوجوان، مہمان نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو اس قوم کو ہلاک کرنے کے لئے آئے ہیں۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے تو وہ ان (کے آنے) سے غمناک اور تنگ دل ہوئے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مشکل کا دن ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو وه ان کی وجہ سے بہت غمگین ہوگئے اور دل ہی دل میں کڑھنے لگے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مصیبت کا دن ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور جب ہمارے فرستادے لوط(ع) کے پاس آئے تو وہ ان کی وجہ سے مغموم ہوئے اور تنگدل ہوگئے اور کہا بڑا سخت دن ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب ہمارے فرستادے لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کے خیال سے رنجیدہ ہوئے اور تنگ دل ہوگئے اور کہا کہ یہ بڑا سخت دن ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور جب ہمارے فرستادہ فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے (تو) وہ ان کے آنے سے پریشان ہوئے اور ان کے باعث (ان کی) طاقت کمزور پڑ گئی اور کہنے لگے: یہ بہت سخت دن ہے (فرشتے نہایت خوب رُو تھے اور حضرت لوط علیہ السلام کو اپنی قوم کی بری عادت کا علم تھا سو ممکنہ فتنہ کے اندیشہ سے پریشان ہوئے)،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر فرشتوں کا نزول۔
حضرت ابراہیم کو یہ فرشتے اپنا بھید بتا کر وہاں سے چل دیئے اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس ان کے زمین میں یا ان کے مکان میں پہنچے۔ مرد خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تھے تاکہ قوم لوط کی پوری آزمائش ہوجائے، حضرت لوط ان مہمانوں کو دیکھ کر قوم کی حالت سامنے رکھ کر سٹ پٹا گئے، دل ہی دل میں پیچ تاب کھانے لگے کہ اگر انہیں مہمان بناتا ہوں تو ممکن ہے خبر پاکر لوگ چڑھ دوڑیں اور اگر مہمان نہیں رکھتا تو یہ انہی کے ہاتھ پڑجائیں گے۔ زبان سے بھی نکل گیا کہ آج کا دن بڑا ہیبت ناک دن ہے۔ قوم والے اپنی شرارت سے باز نہیں آئیں گے۔ مجھ میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں۔ کیا ہوگا ؟ قتادہ فرماتے ہیں۔ حضرت لوط اپنی زمین پر تھے کہ یہ فرشتے بصورت انسان آئے اور ان کے مہمان بنے۔ شرما شرمی انکار تو نہ سکے اور انہیں لے کر گھر چلے، راستے میں صرف اس نیت سے کہ یہ اب بھی واپس چلے جائیں ان سے کہا کہ واللہ یہاں کے لوگوں سے زیادہ برے اور خبیث لوگ اور کہیں نہیں ہیں۔ کچھ دور جا کر پھر یہی کہا غرض گھر پہچنے تک چار بار یہی کہا۔ فرشتوں کو اللہ کا حکم بھی یہی تھا کہ جب تک ان کا نبی، ان کی برائی نہ بیان کرے انہیں ہلاک نہ کرنا۔ سدی فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس سے چل کر دوپہر کو یہ فرشتے نہر سدوم پہنچے وہاں حضرت لوط کی صاحبزادی جو پانی لینے گئی تھیں، مل گئیں۔ ان سے انہوں نے پوچھا کہ یہاں ہم کہیں ٹھہر سکتے ہیں۔ اس نے کہا آپ یہیں رکیئے میں واپس آکر جواب دوں گی۔ انہیں ڈر لگا کہ اگر قوم والوں کے ہاتھ یہ لگ گئے تو ان کی بڑی بےعزتی ہوگی۔ یہاں آکر والد صاحب سے ذکر کیا کہ شہر کے دروازے پر چند پردیسی نو عمر لوگ ہیں، میں نے تو آج تک نہیں دیکھے، جاؤ اور انہیں ٹھہراؤ ورنہ قوم والے انہیں ستائیں گے۔ اس بستی کے لوگوں نے حضرت لوط سے کہہ رکھا تھا کہ دیکھو کسی باہر والے کو تم اپنے ہاں ٹھیرایا نہ کرو۔ ہم آپ سب کچھ کرلیا کریں گے۔ آپ نے جب یہ حالت سنی تو جا کر چپکے سے انہیں اپنے گھر لے آئے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ مگر آپ کی بیوی جو قوم سے ملی ہوئی تھی، اسی کے ذریعہ بات پھوٹ نکلی۔ اب کیا تھا۔ دوڑے بھاگے آگئے، جسے دیکھو خوشیاں مناتا جلدی جلدی لپکتا چلا آتا ہے ان کی تو یہ خو خصلت ہوگئی تھی اس سیاہ کاری کو تو گویا انہوں نے عادت بنا لیا تھا۔ اس وقت اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں نصیحت کرنے لگے کہ تم اس بد خصلت کو چھوڑو اپنی خواہشیں عورتوں سے پوری کرو۔ بناتی یعنی میری لڑکیاں۔ اس لیے فرمایا کہ ہر نبی اپنی امت کا گویا باپ ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی ایک اور آیت میں ہے کہ اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ ہم تو پہلے ہی آپ کو منع کرچکے تھے کہ کسی کو اپنے ہاں نہ ٹھیرایا کرو۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں سمجھایا اور دنیا آخرت کی بھلائی انہیں سجھائی اور کہا کہ عورتیں ہی اس بات کے لیے موزوں ہیں۔ ان سے نکاح کر کے اپنی خواہش پوری کرنا ہی پاک کام ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ سمجھا جائے کہ آپ نے اپنی لڑکیوں کی نسبت یہ فرمایا تھا نہیں بلکہ نبی اپنی پوری امت کا گویا باپ ہوتا ہے۔ قتادہ وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے۔ امام ابن جریج فرماتے ہیں یہ بھی نہ سمجھنا چاہیے کہ حضرت لوط نے عورتوں سے بےنکاح ملاپ کرنے کو فرمایا ہو۔ نہیں مطلب آپ کا ان سے نکاح کرلینے کے حکم کا تھا۔ فرماتے ہیں اللہ سے ڈرو میرا کہا مانو، عورتوں کی طرف رغبت کرو، ان سے نکاح کر کے حاجت روائی کرو۔ مردوں کی طرف اس رغبت سے نہ آؤ اور خصوصاً یہ تو میرے مہمان ہیں، میری عزت کا خیال کرو کیا تم میں ایک بھی سمجھدار، نیک راہ یافتہ بھلا آدمی نہیں۔ اس کے جواب میں ان سرکشوں نے کہا کہ ہمیں عورتوں سے کوئی سروکار ہی نہیں یہاں بھی بناتک یعنی تیری لڑکیاں کے لفظ سے مراد قوم کی عورتیں ہیں۔ اور تجھے معلوم ہے کہ ہمارا ارادہ کیا ہے یعنی ہمارا ارادہ ان لڑکوں سے ملنے کا ہے۔ پھر جھگڑا اور نصیحت بےسود ہے۔