Skip to main content

وَلَقَدْ جَاۤءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًا ۗ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَاۤءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ

And certainly
وَلَقَدْ
اور البتہ تحقیق
came
جَآءَتْ
آگئے
Our messengers
رُسُلُنَآ
ہمارے بھیجے ہوئے
(to) Ibrahim
إِبْرَٰهِيمَ
ابراہیم کے پاس
with glad tidings
بِٱلْبُشْرَىٰ
خوش خبری کے ساتھ
they said
قَالُوا۟
انہوں نے کہا
"Peace"
سَلَٰمًاۖ
سلام
He said
قَالَ
وہ بولے
"Peace"
سَلَٰمٌۖ
سلام
and not he delayed
فَمَا
پس نہیں
and not he delayed
لَبِثَ
ٹھہرے
to
أَن
مگر
bring
جَآءَ
لے آئے
a calf
بِعِجْلٍ
ایک بچھڑا
roasted
حَنِيذٍ
تلا ہوا

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اور دیکھو، ابراہیمؑ کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لیے ہوئے پہنچے کہا تم پر سلام ہو ابراہیمؑ نے جواب دیا تم پر بھی سلام ہو پھر کچھ دیر نہ گزری کہ ابراہیمؑ ایک بھنا ہوا بچھڑا (ان کی ضیافت کے لیے) لے آیا

English Sahih:

And certainly did Our messengers [i.e., angels] come to Abraham with good tidings; they said, "Peace." He said, "Peace," and did not delay in bringing [them] a roasted calf.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اور دیکھو، ابراہیمؑ کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لیے ہوئے پہنچے کہا تم پر سلام ہو ابراہیمؑ نے جواب دیا تم پر بھی سلام ہو پھر کچھ دیر نہ گزری کہ ابراہیمؑ ایک بھنا ہوا بچھڑا (ان کی ضیافت کے لیے) لے آیا

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور بیشک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس مژدہ لے کر آئے بولے سلام کہا کہا سلام پھر کچھ دیر نہ کی کہ ایک بچھڑا بھنا لے آئے

احمد علی Ahmed Ali

اور ہمارے بھیجے ہوئے ابراھیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے انہوں نے کہا سلام اس نے کہا سلام پس دیر نہ کی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور ہمارے بھیجے ہوئے پیغمبر ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر پہنچے (١) اور سلام کہا (٢) انہوں نے بھی جواب میں سلام دیا (٣) اور بغیر کسی تاخیر کے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے (٤)

٦٩۔١ یہ دراصل حضرت لوط اور ان کی قوم کے قصے کا ایک حصہ ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا زاد بھائی تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی بستی بحرہ، میت کے جنوب مشرق میں تھی، جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین میں مقیم تھے۔ جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ تو ان کی طرف سے فرشتے بھیجے گئے۔ یہ فرشتے قوم لوط علیہ السلام کی طرف جاتے ہوئے راستے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس ٹھہرے اور انہیں بیٹے کی بشارت دی۔
٦٩۔٢ یعنی سلمنا سلاما علیک ہم آپ کو سلام عرض کرتے ہیں۔
٦٩۔٣ جس طرح پہلا سلام ایک فعل مقدر کے ساتھ منصوب تھا۔ اس طرح یہ سالم مبتدا یا خبر ہونے کی بنا پر مرفوع ہے عبادت ہوگی;
اَمْرُکُمْ سَلَا م،ُ یا عَلَیْکُمْ سَلَام،ُ۔
٦٩۔٤ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام بڑے مہمان نواز تھے وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ یہ فرشتے ہیں جو انسانی صورت میں آئے ہیں اور کھانے پینے سے معزور ہیں، بلکہ انہوں نے انہیں مہمان سمجھا اور فورا مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے بھنا ہوا بچھڑا لا کر ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں بلکہ جو موجود ہو حاضر خدمت کر دیا جائے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابراہیم) ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور ہمارے بھیجے ہوئے پیغامبر ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر پہنچے اور سلام کہا، انہوں نے بھی جواب سلام دیا اور بغیر کسی تاخیر کے گائے کا بھنا ہوا بچھڑا لے آئے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

بے شک ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ابراہیم(ع) کے پاس خوشخبری لے کر آئے اور کہا تم پر سلام انہوں نے (جواب میں) کہا تم پر بھی سلام پھر دیر نہیں لگائی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور ابراہیم کے پاس ہمارے نمائندے بشارت لے کر آئے اور آکر سلام کیا تو ابراہیم نے بھی سلام کیا اور تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ بھنا ہوا بچھڑا لے آئے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور بیشک ہمارے فرستادہ فرشتے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس خوشخبری لے کر آئے، انہوں نے سلام کہا، ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی (جوابًا) سلام کہا، پھر (آپ علیہ السلام نے) دیر نہ کی یہاں تک کہ (ان کی میزبانی کے لئے) ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

ابراہیم (علیہ السلام) کی بشارت اولاد اور فرشتوں سے گفتگو
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس وہ فرشتے بطور مہمان بشکل انسان آتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کی خوشخبری اور حضرت ابراہیم کے ہاں فرزند ہونے کی بشارت لے کر اللہ کی طرف سے آئے ہیں۔ وہ آکر سلام کرتے ہیں۔ آپ ان کے جواب میں سلام کہتے ہیں۔ اس لفظ کو پیش سے کہنے میں علم بیان کے مطابق ثبوت و دوام پایا جاتا ہے۔ سلام کے بعد ہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کے سامنے مہمان داری پیش کرتے ہیں۔ بچھڑے کا گوشت جسے گرم پتھروں پر سینک لیا گیا تھا، لاتے ہیں۔ جب دیکھا کہ ان نو وارد مہمانوں کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے ہی نہیں، اس وقت ان سے کچھ بدگمان سے ہوگئے اور کچھ دل میں خوف کھانے لگے حضرت سدی فرماتے ہیں کہ ہلاکت قوم لوط کے لیے جو فرشتے بھیجے گئے وہ بصورت نوجوان انسان زمین پر آئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے گھر پر اترے آپ نے انہیں دیکھ کر بڑی تکریم کی، جلدی جلدی اپنا بچھڑا لے کر اس کو گرم پتھوں پر سینک کر لا حاضر کیا اور خود بھی ان کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ گئے، آپ کی بیوی صاحبہ حضرت سارہ کھلانے پلانے کے کام کاج میں لگ گئیں۔ ظاہر ہے کہ فرشتے کھانا نہیں کھاتے۔ وہ کھانے سے رکے اور کہنے لگے ابراہیم ہم جب تلک کسی کھانے کی قیمت نہ دے دیں کھایا نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا ہاں قیمت دے دیجئے انہوں نے پوچھا کیا قیمت ہے، آپ نے فرمایا بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرنا اور کھانا کھا کر الحمد اللہ کہنا یہی اس کی قیمت ہے۔ اس وقت حضرت جبرائیل نے حضرت میکائیل کی طرف دیکھا اور دل میں کہا کہ فی الواقع یہ اس قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنا خلیل بنائے۔ اب بھی جو انہوں نے کھانا شروع نہ کیا تو آپ کے دل میں طرح طرح کے خیالات گذرنے لگے۔ حضرت سارہ نے دیکھا کہ خود حضرت ابراہیم ان کے اکرام میں یعنی ان کے کھانے کی خدمت میں ہیں، تاہم وہ کھانا نہیں کھاتے تو ان مہمانوں کی عجیب حالت پر انہیں بےساختہ ہنسی آگئی۔ حضرت ابراہیم کو خوف زدہ دیکھ کر فرشتوں نے کہا آپ خوف نہ کیجئے۔ اب دہشت دور کرنے کے لیے اصلی واقعہ کھول دیا کہ ہم کوئی انسان نہیں فرشتے ہیں۔ قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں کہ انہیں ہلاک کریں۔ حضرت سارہ کو قوم لوط کی ہلاکت کی خبر نے خوش کردیا۔ اسی وقت انہیں ایک دوسری خوشخبری بھی ملی کہ اس ناامیدی کی عمر میں تمہارے ہاں بچہ ہوگا۔ انہیں عجب تھا کہ جس قوم پر اللہ کا عذاب اتر رہا ہے، وہ پوری غفلت میں ہے۔ الغرض فرشتوں نے آپ کو اسحاق نامی بچہ پیدا ہونے کی بشارت دی۔ اور پھر اسحاق کے ہاں یعقوب کے ہونے کی بھی ساتھ ہی خوش خبری سنائی۔ اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تھے۔ کیونکہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی تو بشارت دی گئی تھی اور ساتھ ہی ان کے ہاں بھی اولاد ہونے کی بشارت دی گئی تھی۔ یہ سن کر حضرت سارہ (علیہ السلام) نے عورتوں کی عام عادت کے مطابق اس پر تعجب ظاہر کیا کہ میاں بیوی دونوں کے اس بڑھے ہوئے بڑھاپے میں اولاد کیسی ؟ یہ تو سخت حیرت کی بات ہے۔ فرشتوں نے کہا امر اللہ میں کیا حیرت ؟ تم دونوں کو اس عمر میں ہی اللہ بیٹا دے گا گو تم سے آج تک کوئی اولاد نہیں ہوئی اور تمہارے میاں کی عمر بھی ڈھل چکی ہے۔ لیکن اللہ کی قدرت میں کمی نہیں وہ جو چاہے ہو کر رہتا ہے، اے نبی کے گھر والو تم پر اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہیں، تمہیں اس کی قدرت میں تعجب نہ کرنا چاہے۔ اللہ تعالیٰ تعریفوں والا اور بزرگ ہے۔