وَقَالَ مُوْسٰى رَبَّنَاۤ اِنَّكَ اٰتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَاَهٗ زِيْنَةً وَّاَمْوَالًا فِى الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۙ رَبَّنَا لِيُضِلُّوْا عَنْ سَبِيْلِكَۚ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰۤى اَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْا حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَ لِيْمَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
موسیٰؑ نے دعا کی “اے ہمارے رب، تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں زینت اور اموال سے نواز رکھا ہے اے رب، کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے بھٹکائیں؟ اے رب، ان کے مال غارت کر دے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر کر دے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں"
English Sahih:
And Moses said, "Our Lord, indeed You have given Pharaoh and his establishment splendor and wealth in the worldly life, our Lord, that they may lead [men] astray from Your way. Our Lord, obliterate their wealth and harden their hearts so that they will not believe until they see the painful punishment."
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
موسیٰؑ نے دعا کی “اے ہمارے رب، تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں زینت اور اموال سے نواز رکھا ہے اے رب، کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے بھٹکائیں؟ اے رب، ان کے مال غارت کر دے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر کر دے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں"
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور موسیٰ نے عرض کی اے رب ہمارے تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو آرائش اور مال دنیا کی زندگی میں دیے، اے رب ہمارے! اس لیے کہ تیری راہ سے بہکادیں، اے رب ہمارے! ان کے مال برباد کردے اور ان کے دل سخت کردے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں
احمد علی Ahmed Ali
اورموسیٰ نے کہا اے رب ہمارے تو نے فرعون اوراس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں آرائش اور ہر طرح کا مال دیا ہے اے رب ہمارے یہاں تک کہ انہوں نےتیرے راستہ سے گمراہ کر دیا اے رب ہمارے ان کے مالوں کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے پس یہ ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھیں
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے ہمارے رب! تو نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مال دنیاوی زندگی میں دیئے اے ہمارے رب! (اسی واسطے دیئے ہیں کہ) وہ تیری راہ سے گمراہ کریں۔ اے ہمارے رب! انکے مالوں کو نیست و نابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کردے (١) سو یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں (٢)
٨٨۔١ جب موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ فرعون اور اس کی قوم پر وعظ نصیحت کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا اور اس طرح معجزات دیکھ کر بھی ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تو پھر ان کے حق میں بد دعا فرمائی۔ جسے اللہ نے یہاں نقل فرمایا ہے۔
٨٨۔٢ یعنی اگر یہ ایمان لائیں بھی تو عذاب دیکھنے کے بعد لائیں، جو ان کے لئے نفع بخش نہیں ہوگا۔ یہاں ذہن میں یہ اشکال نہیں آنا چاہیے کہ پیغمبر تو ہدایت کی دعا کرتے ہیں نہ کہ ہلاکت کی بد دعا۔ اس لئے کہ دعوت و تبلیغ اور ہر طرح سے تمام حجت کے بعد، جب یہ واضح ہو جائے کہ اب ایمان لانے کی کوئی امید باقی نہیں رہی، تو پھر آخری چارہ کار یہی رہ جاتا ہے کہ اس قوم کے معاملے کو اللہ کے سپرد کر دیا جائے، یہ گو اللہ کی مشیت ہی ہوتی ہے جو بے اختیار پیغمبر کی زبان پر جاری ہو جاتی ہے جس طرح حضرت نوح علیہ السلام نے بھی ساڑھے نو سو سال تبلیغ کرنے کے بعد بالآخر اپنی قوم کے بارے بد دعا فرمائی۔"رب لاتذر علی الارض من الکافرین دیارا; اے رب زمین پر ایک کافر کو بھی بسا نہ رہنے دے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور موسیٰ نے کہا اے ہمارے پروردگار تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں (بہت سا) سازو برگ اور مال وزر دے رکھا ہے۔ اے پروردگار ان کا مال یہ ہے کہ تیرے رستے سے گمراہ کردیں۔ اے پروردگار ان کے مال کو برباد کردے اور ان کے دلوں کو سخت کردے کہ ایمان نہ لائیں جب تک عذاب الیم نہ دیکھ لیں
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا اے ہمارے رب! تو نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مال دنیاوی زندگی میں دیئے۔ اے ہمارے رب! (اسی واسطے دیئے ہیں کہ) وه تیری راه سے گمراه کریں۔ اے ہمارے رب! ان کے مالوں کو نیست ونابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کردے سو یہ ایمان نہ ﻻنے پائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور موسیٰ نے (دعا مانگتے ہوئے) کہا اے ہمارے پروردگار تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیاوی زندگی میں زیب و زینت (کی چیزوں) اور بہت سے مال و دولت سے نوازا ہے۔ اے پروردگار! اس کا نتیجہ اور انجام یہ ہے کہ وہ (تیرے بندوں کو) تیرے راستہ سے بہکاتے ہیں۔ اے ہمارے مالک، ان کے مالوں کو نابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں ایمان نہ لائیں (اور اس وقت ایمان کا لانا سودمند نہ ہوگا)۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور موسٰی نے کہا کہ پروردگار تو نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو زندگانی دنیامیں اموال عطا کئے ہیں -خدایا یہ تیرے راستے سے بہکائیں گے -خدایا ان کے اموال کو برباد کردے -ان کے دلوں پر سختی نازل فرما یہ اس وقت تک ایمان نہ لائیں گے جب تک اپنی آنکھوں سے دردناک عذاب نہ دیکھ لیں
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: اے ہمارے رب! بیشک تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیوی زندگی میں اسبابِ زینت اور مال و دولت (کی کثرت) دے رکھی ہے، اے ہمارے رب! (کیا تو نے انہیں یہ سب کچھ اس لئے دیا ہے) تاکہ وہ (لوگوں کو کبھی لالچ اور کبھی خوف دلا کر) تیری راہ سے بہکا دیں۔ اے ہمارے رب! تو ان کی دولتوں کو برباد کردے اور ان کے دلوں کو (اتنا) سخت کردے کہ وہ پھر بھی ایمان نہ لائیں حتٰی کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
فرعون کا تکبر اور موسیٰ (علیہ السلام) کی بد دعا
جب فرعون اور فرعونیوں کا تکبر، تجبر، تعصب بڑھتا ہی گیا۔ ظلم و ستم بےرحمی اور جفا کاری انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ کے صابر نبیوں نے ان کے لیے بد دعا کی کہ یا اللہ تو نے انہیں دنیا کی زینت و مال خوب خوب دیا اور تو بخوبی جانتا ہے کہ وہ تیرے حکم کے مطابق مال خرچ نہیں کرتے۔ یہ صرف تیری طرف سے انہیں ڈھیل اور مہلت ہے۔ یہ مطلب تو ہے جب لیضلِّوا پڑھا جائے جو ایک قرأت ہے اور جب لِیُضِلُّوا پڑھیں تو مطلب یہ ہے کہ یہ اس لئے کہ وہ اوروں کو گمراہ کریں جن کی گمراہی تیری چاہت میں ہے ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ یہی لوگ اللہ کے محبوب ہیں ورنہ اتنی دولت مندی اور اس قدر عیش و عشرت انہیں کیوں نصیب ہوتا ہے ؟ اب ہمای دعا ہے کہ ان کے یہ مال تو غارت اور تباہ کر دے۔ چناچہ ان کے تمام مال اسی طرح پتھر بن گئے۔ سونا چاندی ہی نہیں بلکہ کھیتیاں تک پتھر کی ہوگئیں حضرت محمد بن کعب اس سورة یونس کی تلاوت امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کے سامنے کر رہے تھے جب اس آیت تک پہنچے تو خلیفۃ المسلمین نے سوال کیا کہ یہ طمس کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا ان کے مال پتھر بنا دیئے گئے تھے۔ حضرت عمر (رض) نے اپنا صندوقچہ منگوا کر اس میں سے سفید چنا نکال کر دکھایا جو پتھر بن گیا تھا۔ اور دعا کی کہ پروردگار ان کے دل سخت کر دے ان پر مہر لگادے کہ انہیں عذاب دیکھنے تک ایمان لانا نصیب نہ ہو۔ یہ بد دعا صرف دینی حمیت اور دینی دل سوزی کی وجہ سے تھی یہ غصہ اللہ اور اس کے دین کی خاطر تھا۔ جب دیکھ لیا اور مایوسی کی حد آگئی حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا ہے کہ الٰہی زمین پر کسی کافر کو زندہ نہ چھوڑ ورنہ اروں کو بھی بہکائیں گے اور جو نسل ان کی ہوگی وہ بھی انہیں جیسی بےایمان بدکار ہوگی۔ جناب باری نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون دونوں بھائیوں کی یہ دعا قبول فرمائی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دعا کرتے جاتے تھے اور حضرت ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے جاتے تھے۔ اسی وقت وحی آئی کہ " ہماری یہ دعا مقبول ہوگئی " سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ آمین کا کہنا بمنزلہ دعا کرنے کے ہے کیونکہ دعا کرنے والے صرف حضرت موسیٰ تھے آمین کہنے والے حضرت ہارون تھے لیکن اللہ نے دعا کی نسبت دونوں کی طرف کی پس مقتدی کے آمین کہہ لینے سے گویا فاتحہ کا پڑھ لینے والا ہے۔ پس اب تم دونوں بھائی میرے حکم پر مضبوطی سے جم جاؤ۔ جو میں کہوں بجا لاؤ۔ اسی دعا کے بعد فرعون چالیس ماہ زندہ رہا کوئی کہتا ہے چالیس دن۔