فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِهٖ ۗ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
پھر اُس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسُوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھُوٹا قرار دے یقیناً مجرم کبھی فلاح نہیں پا سکتے "
English Sahih:
So who is more unjust than he who invents a lie about Allah or denies His signs? Indeed, the criminals will not succeed.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
پھر اُس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسُوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھُوٹا قرار دے یقیناً مجرم کبھی فلاح نہیں پا سکتے "
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتیں جھٹلائے، بیشک مجرموں کا بھلا نہ ہوگا،
احمد علی Ahmed Ali
پھر اس سے بڑا ظالم کون ہو گا جو الله پر بہتان باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے بے شک گناہگاروں کابھلا نہیں ہوتا
أحسن البيان Ahsanul Bayan
سو اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتلائے، یقیناً ایسے مجرموں کو اصلاً فلاح نہ ہوگی۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا پر جھوٹ افترا کرے اور اس کی آیتوں کو جھٹلائے۔ بےشک گنہگار فلاح نہیں پائیں گے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
سو اس شخص سے زیاده کون ﻇالم ہوگا جو اللہ پرجھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتلائے، یقیناً ایسے مجرموں کو اصلاً فلاح نہ ہوگی
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
پھر اس سے بڑھ کر کون ظالم ہو سکتا ہے جو خدا پر جھوٹا افترا باندھے؟ یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے یقینا مجرم کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹا الزام لگائے یا اس کی آیتوں کی تکذیب کرے جب کہ وہ مجرمین کو نجات دینے والا نہیں ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
پس اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلا دے۔ بیشک مجرم لوگ فلاح نہیں پائیں گے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
مجرم اور ظالموں کا سرغنہ
اس سے زیادہ ظالم، اس سے زیادہ مجرم، اسے زیادہ سرکش اور کون ہوگا ؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور اس کی طرف نسبت کر کے وہ کہے جو اس نے نہ فرمایا ہو۔ رسالت کا دعویٰ کر دے حالانکہ اللہ نے اسے نہ بھیجا ہو۔ ایسے جھوٹے لوگ تو عامیوں کے سامنے بھی چھپ نہیں سکتے چہ جائیکہ عاقلوں کے سامنے اس گناہ کا کبیرہ ترین ہونا تو کسی سے مخفی نہیں۔ پھر کیسے ہوسکتا ہے کہ نبی اس سے غافل رہیں ؟ یاد رکھو جو بھی منصب نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کی صداقت یا جھوٹ پر ایسے دلائل قائم کردیتی ہے کہ اس کا معاملہ بالکل ہی کھل جاتا ہے ایک طرف حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لیجئے اور دوسری جانب مسلیمہ کذاب کو رکھئے تو اتنا ہی فرق معلوم ہوگا۔ جتنا آدھی رات اور دوپہر کے وقت میں دونوں کے اخلاق عادات، حالات کا معائنہ کرنے والا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچائی اور اس کی غلط گوئی میں کوئی شک نہیں کرسکتا۔ اسی طرح سجاح اور اسود عنسی کا دعوی ہے کہ نظر ڈالنے کے بعد کسی کو ان کے جھوٹ میں شک نہیں رہتا۔ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) فرماتے ہیں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینے میں آئے لوگ آپ کے دیکھنے کے لیے گئے۔ میں بھی گیا آپ کے چہرے پر نظریں پڑتے ہی میں نے سمجھ لیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا نہیں۔ پاس گیا تو سب سے پہلے آپ کی زبان مبارک سے یہ کلام سنا کہ لوگو سلام پھیلاؤ، کھانا کھلاتے رہا کرو۔ صلہ رحمی قائم رکھو۔ راتوں کو لوگوں کی نیند کے وقت تہجد کی نماز پڑھا کرو تو سلامتی کے ساتھ جنت میں جاؤ گے۔ اسی طرح جب سعد بن بکر کے قبیلے کے وفد میں ضمام بن ثعلبہ (رض) آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو پوچھا کہ اس آسمان کا بلند کرنے والا کون ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہے۔ اس نے پوچھا ان پہاڑوں کا گاڑھنے ولا کون ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ اس نے پوچھا اس زمین کا پھیلانے والا کون ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ۔ تو اس نے کہا میں آپ کو اسی اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ جس نے ان آسمانوں کو بلند کیا۔ ان پہاڑوں کو گاڑ دیا اس زمین کو پھیلا دیا کہ کیا واقعی اللہ تعالیٰ ہی نے آپ کو اپنا رسول بنا کر ہماری طرف بھیجا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں اسی اللہ کی قسم ہاں۔ اسی طرح نماز، زکوٰۃ، حج اور روزے کی بابت بھی اس نے ایسی ہی تاکیدی قسم دلا کر سوال کیا اور آپ نے بھی قسم کھا کر جواب دیا۔ تب اس نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے ہیں۔ اس کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ نہ میں اس پر بڑھاؤں گا اور نہ کم کروں گا۔ پس اس شخص نے صرف اسی پر قناعت کرلی۔ اور جو دلائل آپ کی صداقت کے اس کے سامنے تھے ان پر اسے اعتبار آگیا۔ حضرت حسان نے آپ کی تعریف میں کتنا اچھا شعر کہا ہے
لو لم تکن فیہ ایات مبینتہ
کانت بدیھتہ تاتیک بالخیر
یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اگر اور ظاہر اور کھلی نشانیاں نہ بھی ہوتیں تو صرف یہی ایک بات کافی تھی کہ چہرہ دیکھتے ہی بھلائی اور خوبی تیری طرف لپکتی ہے۔ فصلوات اللہ وسلامہ علیہ۔ برخلاف آپ کے کذاب مسیلمہ کے جس نے اسے بیک نگاہ دیکھ لیا اس کا جھوٹ اس پر کھل گیا۔ خصوصاً جس نے اس کے فضول اقوال اور بدترین افعال دیکھ لئے۔ اسے اس کے جھوٹ میں ذرا سا شائبہ بھی نہ رہا۔ جسے وہ اللہ کا کلام کہہ رہا تھا اس کلام کی بدمزگی، اس کی بےکاری، تو اتنی ظاہر ہے کہ کلام کے سامنے پیش کئے جانے کے بھی قابل نہیں۔ لو اب تم ہی انصاف کرو۔ آیت الکرسی کے مقابلے میں اس ملعون نے یہ آیت بنائی تھی۔ یاضفدع بنت ضفد عین نقی کم تنقین لا للماء تکدرین ولا الش اور بتمنعین یعنی اے مینڈکوں کے بچے میں مینڈک تو ٹراتا رہ۔ نہ تو پانی خراب کرسکے نہ پینے والوں کو روک سکے۔ اس طرح اس کے ناپاک کلام کے نمونے میں اس کی بنائی ایک اور آیت ہے کہ لقد انعم اللہ علی الجبلی اذا خرج منھا نسمۃ تسعی من بین صفاق وحشی اللہ نے حاملہ پر بڑی مہربانی فرمائی کہ اس کے پیٹ سے چلتی پھرتی جان برآمد کی، جھلی اور آنتوں کے درمیان سے۔ سورة الفیل کے مقابلے میں وہ پاجی کہتا ہے الفیل وما ادراک ما الفیل لہ خرطوم طویل یعنی ہاتھی اور کیا جانے تو کیا ہے ہاتھی ؟ اس کی بڑی لمبی سونڈھ ہوتی ہے۔ والنازعات کا معارضہ کرتے ہوئے یہ کمینہ کہتا ہے والعاجنات عجنا والخابزات خبزا والاقمات لقما اھالتہ و سمعان ان قریشا قوم یعتدون یعنی آٹا گوندھنے والا اور روٹی پکانے والیاں، اور لقمے بنانے والیاں، سالن اور گھی سے۔ قریش لوگ بہت آگے نکل گئے۔ اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ یہ بچوں کا کھیل ہے یا نہیں ؟ شریف انسان تو سوائے مذاق کے ایسی بات منہ سے بھی نہیں نکال سکتا پھر اس کا انجام دیکھئے لڑائی میں مارا گیا۔ اس کا گروہ مٹ گیا۔ اس کے ساتھیوں پر لعنت برسی۔ حضرت صدیق اکبر کے پاس خائب و خاسر ہو کر منہ پر مٹی مل کر پیش ہوئے اور رو دھو کر توبہ کر کے جوں جوں کر کے جان بچائی۔ پھر تو اللہ کے سچے دین کی چاشنی سے ہونٹ چوسنے لگے۔ ایک روز ان سے خلیفۃ المسلمین امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے کہا کہ مسیلمہ کا قرآن تو سناؤ تو بہت سٹ پٹائے بیحد شرمائے اور کہنے لگے حضرت ہمیں اس ناپاک کلام کے زبان سے نکالنے پر مجبور نہ کیجئے ہمیں تو اس سے شرم معلوم ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں تو ضرور سناؤ تاکہ ہمارے مسلمان بھائیوں کو بھی اس کی رکاکت اور بےہودگی معلوم ہوجائے۔ آخر مجبور ہو کر انہوں نہایت ہی شرماتے ہوئے کچھ پڑھا جس کا نمونہ اوپر گزرا کہ کہیں میں مینڈک کا ذکر کہیں ہاتھی کا کہیں روٹی کا کہیں حمل کا۔ اور وہ سارے ہی ذکر بےسود بےمزہ اور بےکار۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے آخر میں فرمایا یہ تو بتاؤ تمہاری عقلیں کہاں ماری گئیں تھیں ؟ واللہ اسے تو کوئی بیوقوف بھی ایک لمحہ کے لیے کلام اللہ نہیں کہہ سکتا۔ مذکور ہے کہ عمرو بن العاص اپنے کفر کے زمانے میں مسیلمہ کے پاس پہنچا۔ یہ دونوں بچپن کے دوست تھے اس سے پوچھا کہو عمرو تمہارے ہاں کے نبی پر آج کل جو وحی اتری ہو اس میں سے کچھ سنا سکتے ہو ؟ اس نے کہا ہاں ان کے اصحاب ایک مختصر سورت پڑھتے تھے جو میری زبان پر بھی چڑھ گئی لیکن بھائی اپنی مضمون کے لحاظ سے وہ سورت بہت بڑی اور بہت ہی اعلیٰ ہے اور لفظوں کے اعتبار سے بہت ہی مختصر اور بڑی جامع ہے۔ پھر اس نے سورة والعصر پڑھ سنائی۔ مسیلمہ چپکا ہوگیا بہت دیر کے بعد کہنے لگا مجھ پر اسی جیسی سورت اتری ہے۔ اس نے کہا ہاں تو بھی سنا دے تو اس نے پڑھا یا وبر یا وبر انما انت اذنان و صدر و سائرک حقر لغر یعنی اے وبر جانور تیرے تو بس دو کان ہیں اور سینہ ہے، اور باقی جسم تو تیرا بالکل حقیر اور عیب دار ہے۔ یہ سنا کر عمرو سے پوچھتا ہے کہو دوست کیسی کہی ؟ اس نے کہا دوست اپنے جھوٹ پر مہر لگا دی اور کیسی کہی ؟ پس جب کہ ایک مشرک پر بھی سچے جھوٹے کی تمیز مشکل نہ ہوئی تو ایک صاحب عقل تمیز دار اور بایمان پر کیسے یہ بات چھپ سکتی ہے ؟ اس کا بیان ( وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِيَ اِلَيَّ وَلَمْ يُوْحَ اِلَيْهِ شَيْءٌ) 6 ۔ الانعام ;93) میں ہے یعنی اللہ پر جھوٹ افترا کرنے والے یا اس کے طرف وحی نہ آنے کے باوجود وحی آنے کا دعویٰ کرنے والے سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں۔ اسی طرح جو کہے کہ میں بھی اللہ کی طرح کا کلام اتار سکتا ہوں۔ مندرجہ بالا آیت میں بھی یہی فرمان ہے۔ پس وہ بڑا ہی ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے، وہ بڑا ہی ظالم ہے جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے۔ حجت ظاہر ہوجانے پر بھی نہ مانے۔ حدیث میں ہے سب سے بڑا سرکش اور بدنصیب وہ ہے جو کسی نبی کو قتل کرے یا نبی اسے قتل کرے۔